Tuesday, April 12, 2022

عمران خان نے اپنے حکوت میں کیا کیا کام کیے

 

عمران_خان  نےساڑھے_تین_سالوں_میں_کیا_کیا..؟

1- ہالینڈ کی حکومت سے  گستاخانہ خاکوں کی نماٸش کو رکوایا.

2 دہشتگردی کو اسلام سے جوڑنا غلط ہے۔

 

3 اسلام شدت پسند یا لبرل نہیں ایک ہی ہے  محمد کا دین ہے۔

4 دنیا بھر کے فورمز پر اسلاموفوبیا کے خلاف آواز اٹھاٸی

 

5 سری لنکا میں مسلمانوں کو دفنانے کی اجازت لے کر دی

۔6 آذادی اظہار کے پیچھے چھپ کے آپ ہمارے نبی کی

 گستاخی نہیں کر سکتے

7 فحاشی کے خلاف آواز بلند کی۔

 

8 ختم نبوت کو بچوں کے سلیبس میں شامل کروایا

 

9رحمت العالمین کانفرنس شروع کرواٸی۔

 

10 پہلی بار مدرسے کے بچوں کی تعلیم کے لیے آواز

ااٹھائی۔

11- رسول اللہ کی سیرت پر پی ایچ ڈی Phd کرانا

 شروع کی۔

12 مدینہ کی ریاست بنانے کی بات کی۔

13 گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو ہمیشہ کیلیے بند کروانے کیلیے  تمام مسلمان سربراہان کو خط بھیجے کہ آؤ ملکر یہ معاملہ اٹھائیں۔

14- 47 سال بعد کامیاب سفارتکاری کے باعث او آئی سی OIC کا کامیاب اجلاس پاکستان میں منعقد کروایا۔

 

15 بھارت کو 27 فروری کو ناکوں چنے چبواۓ۔

 

16 بھارت کو کشمیر پر بھرپور طریقے سے ننگا بھی اور عالمی فورمز پر بھارت کے خلاف لابنگ بھی کی۔

 

17 کئی دہائیوں بعد امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر امریکا کو کسی نے ذلیل بھی کیا اور مزید اڈے دینے سے انکار بھی کیا۔

 

18مزید امریکی جنگ کا حصہ بننے سے بھی انکار کیا اور اسکی سخت مخالفت بھی کی

 

19 امریکا کو اس خطے سے آؤٹ بھی کر دیا

 

20بھارت کے لئے افغاناستان میں زمین تنگ کر دی اور وہ اربوں۔ ڈالرز کی انویسٹمنٹ چھوڑ کر بھاگ نکلا۔

 

#خسارہ

 تین سال پہلے 20 ارب ڈالر،

آج 1.8 ارب ڈالر سرپلس

فارن کرنسی ریزروز: تین سال پہلے کل 7 ارب ڈالرز

 آج 27.40 ارب ڈالر تک پہنچ گئے

#ٹیکس_کولیلکشن:

 تین سال پہلے 3400 ارب روپے،

 پچھلے سال 4700 ارب تھی جو 2022 کے لئے ہدف  6400  ارب روپےرکھا گیا

 

#ترسیلات_زر

تین سال پہلے 19.9 ارب ڈالر ،

 آج 30 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا

 

 #ڈیم:

 51 سال بعد 12 ڈیم

 

 #تعلیم:

 سارے پاکستان کے لیے یکساں نصاب۔

 پانچویں جماعت تک بطور سبجیکٹ  قرآن پاک کا ناظرہ لازمی قرار

چھٹی کلاس سے بارہویں تک بطور سبجیکٹ قرآن پاک کا ترجمہ لازمی قرار ورنہ امتحانات میں کامیابی ناممکن پرائیویٹ سکولز کو بھی اسکا پابند کیا گیا

 

#معشیت:

کرونا وبا کے باوجود جہاں دنیا کی معیشیتیں سکڑ گیں پاکستان کی معیشیت اقوام متحدہ اور موڈیز کے مطابق 2022 میں پاکستان کی جی ڈی پی  4•4 ہوگی

عالمی مالیاتی اداروں کا پاکستانی معیشیت پر اعتماد کا اظہار

  حکومت سمبھالتے ہی خزانہ خالی ہونے اور بیرونی قرضوں اور انکے سود کی ادائیگیوں کی وجہ سے 3 سال میں مختلف عالمی مالیاتی اداروں اور ملکوں سے 36 ارب  ڈالرز قرضہ لیا گیا

جس میں س  29.75 ارب ڈالر قرضہ واپس بھی کیا گیا یعنی پچھلی حکومتوں کے لئے ہوئے قرضوں اور انکے سود کو واپس کرنے کے لئے خزانے میں کچھ نہ ہونے کی وجہ سے مزید قرض لینے پڑے ورنہ ملک کا دیوالیہ نکل جاتا اس وجہ سے ہمارے ایٹم بم اور سی پیک اور ریکوڈک ذخائر  کو شدید خطرات لاحق ہو گئے تھے

انڈسٹری کی وجہ سے معشیت میں 18 فیصد اضافہ

جوکہ دس سال بعد ممکن ہوا۔

سیمنٹ کی سیل میں 242 فیصد اضافہ۔

گاڑیوں کی سیل میں 100 فیصد اضافہ۔

موٹر سائیکل کی سیل میں 3 گنا ریکارڈ اضافہ

ٹریکٹر کی سیل میں ریکارڈ اضافہ

 

• #ایگریکلچر:

کسان کو 1100 ارب روپے اضافی ملے۔( گنے کی قیمت جو 70 سالوں سے 150 سے بڑھ نہ سکی تھی اسے بڑھا کر 280 روپے من کر دیا اور گندم جو 1300 سے اپر نہ جا سکی تھی آج وہ 2000 روپے من سے تجاوز کر چکی ہے یہ قیمتیں غریب کسان کو فائدہ دینے کے لئے بڑھائی گئیں

جس سے 1100 ارب روپیہ کسان زمیندار طبقہ کو زیادہ ملا .

کسان کو کسان کارڈ جس کے ذریعے سبسیڈیز براہ راست کسان تک پہنچ جائیں گی۔

• #نیب_ریکوری:

 

• 290 ارب روبے 18 سال میں

• 534 ارب روپے 3 سال میں

#میرٹ_کا_نظام

ملک کے تمام سرکاری اداروں میں میرٹ پر لوگوں کو روزگار اور ملازمتیں

 

• #میرے_محب_وطن_پاکستانیوں_نکلو_کی_خاطر_خدارہ غریبوں_پر_خرچ:

پہلے صرف 110 ارب روپے،

اب 260 ارب روپے

 احساس پروگرام میں 70 لاکھ خاندانوں کو 13000 روپے دئے گئے اور مزید یہ سلسلہ چلتا رہے گا ان شاء اللّه

غریب غربا مزدوروں کے لئے لنگر خانے بناۓ گئے

سڑکوں فٹ پاتھوں پر شدید سردی اور شدید گرمی میں سونے والے دور دراز سے شہروں میں آے غریب مزدوروں بچوں اور عورتوں کو تمام تر سہولیات سے آراستہ پناہ گاہیں بنا کر دیں

 

• #کرونا_پر_خرچ:

پاکستان دنیا میں تیسرے نمبر پر

• (ورلڈ بنک کے مطابق)

پاکستان ہیلتھ کارڈ دس لاکھ تک علاج کی سہولت

 

 #اسکالرشپس:

لڑکیوں کے لیے لڑکوں سے زیادہ (اسکولز کیلئے)

لڑکے اور لڑکیوں دونوں کے لیے برابر (انڈر گریجوایٹس کیلئے)

• #جانشینی_سرٹیفیکٹ:

پہلے عدالت سے برسہا برس بعد ملتا تھا،

اب نادرا سے 15 دن میں حصول ممکن۔

کامیاب پاکستان پروگرام:

• 40 لاکھ غریب خاندانوں میں،

ایک فرد کو بلا سود قرضہ،

ایک فرد کو ٹیکنیکل ٹریننگ،

انقلابی صحت کارڈ

اپنا گھر اسکیم:

کرائے کے برابر بنک کو قسط دے کر اپنا گھر

• #اسپشل_پیکجز:

سندھ کی 14 ڈسٹرکٹس کیلئے، کراچی میں گرین لائن بس اسٹاپ پروجیکٹ مکمل

کئی دہائیوں بعد کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا کام تقریبن مکمل

کراچی ٹرانسمیشن لائن پروجیکٹ کی تکمیل 50 سال بعد کراچی کے بند نالوں کو قبضہ مافیا سے بازیاب کروا کر انھیں چلا دیا گیا جس سے کراچی میں سیلاب کے خطرات بہت کم ہو گئے

 

بلوچستان کی 9 ڈسٹرکٹس کیلئے، اور گلگت بلتستان کیلئے، 1300 ارب روپیہ مختص کیا ہے۔

ایز آف بزنس میں پاکستان دنیا میں 28 درجے اوپر چلا گیا۔

 

اوور سیز پاکستانیوں کے سروے کے مطابق پاکستان پر بزنس کنفیڈنس 108 فیصد بڑھا

جلالپور نہر منصوبہ تکمیل کے آخری مراحل میں

چکوال سے میانوالی موٹروے

سیالکوٹ سے جہلم موٹروے

لاہور تا ملتان تا سکھر موٹروے کی تکمیل آگے سے ملحقہ   حیدرآباد موٹروے پر کام جاری

Sunday, March 13, 2022

ڈپٹی نذیر احمد کے ناول توبتہ النصوح کے کردار

 

 توبتہ النصوح کے کردار :

تعارف :

              مولوی نذیر احمد کا تیسرا ناول ہے جو 1877ء میں شائع ہوا۔ یہ اولاد کی تربیت کے بارے میں ہے۔ اس ناول کے ذریعے یہ حقیقت روشن کی گئی ہے کہ اولاد کی محض تعلیم ہی کافی  نہیں ہے۔ اس کی پرورش  اس طرح ہونی چاہیے کہ اس میں نیکی اور دینداری کے جذبات پیدا ہو ں۔ نصوح نےاپنی اولاد کی تربیت ٹھیک طرح سے نہیں کی تھی ۔ شہر میں ہیضہ پھیلا۔ نصوح خود بھی بیمار ہوا ۔ اسی دوران اس نے خواب دیکھا کے عشر کا میدان برپا ہے ۔ ہر ایک کے اعمال کا حساب ہو رہا ہے۔ اس موقع پر نسواں کی جھولی خالی ہے ۔ بیدار ہوا تو وہ اپنے خاندان کی اصلاح پر کمر بستہ ہو گیا۔

 

کردار :

            یہ افسانہ کردار نگاری کے لحاظ سے ایک خوبصورت افسانہ ہے۔ جس میں مولوی نذیر احمد نے ہمارے معاشرے کی اصلاح کی بھرپور کوشش کی ہے ۔  اس افسانے میں پہلے  کرداروں میں نصوح کی اولاد سب لوگ دین سے دور ہو کر برائی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ اور سب لوگ مسائل میں گر جاتے ہیں ۔ جب نصوح بیمار ہوجاتا ہے اور خواب دیکھتا ہے اس کے بعد وہ اپنی اولاد کی اصلاح کرنے میں لگ جاتا ہے۔ 

 

     مولوی نذیر احمد کا ناول  ” توبتہ النصوح  12 فیصد پر مشتمل ہے ۔  اس ناول کے کردار یہ ہیں :

             اس ناول کے کرداروں میں نصوح جو گھر کے مردوں میں سب سے بڑا کردار ہے ۔ شیر نے یہ ڈی بی بی امیر اور امیر زادوں کی طرح تھے اور دین سے بیگانے تھے ۔ اور گھر میں موجود باقی سب کا بھی یہی حال تھا۔ لیکن جب ہیضہ کی بیماری پورے علاقے میں پھیل گئی تو نصوح نھی اس سے بچ نہ سکا ۔ اور اس حادثے کے بعد نصوح کو ہدایت ملی ۔ خواب سے واپس آنے کے بعد نصوح گھر میں موجود سب کی اصلاح شروع کر دیتا ہے ہے ۔

              مولوی نذیر احمد کے ناول توبتہ النصوح میں نصوح کی بیوی کا کردار بھی معاشرتی اصلاح کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے ۔  نصوح نے سب سے پہلے اپنی بیوی کی اصلاح کی ۔ جس کا نام فہمیدہ ہے ۔

            توبتہ النصوح میں نرسوں کے بیٹے کا کردار یار جس کا نام کلیم ہے۔ جو شاعر ہوتا ہے لیکن بات کی بات نہ ماننے کی وجہ سے گھر سے بھاگ جاتا ہے۔ جو زخمی حالت میں گھر واپس آتا ہے ہے اور انتقال کر جاتا ہے۔ اس ناول میں یہ کردار بہت سبق آزمائش کردار ہے۔

           اس ناول کے کرداروں میں نصوح کی اولاد موجود ہے ، جن تمام کی وہ اصلاح کرتا ہے ۔ جس میں اس کا منجھلا بیٹا علیم جو چھٹی جماعت کا طالب علم ہوتا ہے ۔ سلیم جو نصوح کا چھوٹا بیٹا ہوتا ہے۔ جس کی عمر دس سال کی ہوتی ہے اور وہ مدرسہ میں پڑھتا ہے۔

          مولوی نذیر احمد کے ناول توبتہ النصوح  میں نصوح بیٹیوں کے کردار میں نعیمہ نصوح کی بڑی بیٹی کی کی جس کی شادی کو دو سال سال ہو گئے تھے ۔ اور اس کا ایک پانچ مہینے کا بیٹا بھی تھا۔ جو اپنے سو سال میں لڑ کر اپنے ماں باپ کے گھر گھر پر ہی رہی تھی۔ یہ کردار بھی ہمارے معاشرے میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔

           حمیدہ نصوح کی چھوٹی بیٹی کی جس کی عمر چھ سال تھی یہ بھی اس کے کرداروں میں شامل ہے۔ صالحہ جو اس ناول کے کرداروں میں ایماں کی خالہ ہے ۔

            مرزا ظاہر دار بیگ جو اس ناول میں کلیم کے دوست کا کردار ہے۔ یہ حاضر دماغ ، زبان میں جادو اور حاضر دماغ مسلم ہے ۔  فطرت جو اس ناول میں نصوح کے چچا زاد بھائی کا کردار ہے۔ 

          حضرت بی یہ اس ناول کے کرداروں میں میں نے ایک بوڑھی عورت ہے ۔ جسے لوگ حضرت بی کہتے ہیں ۔ اور اس کے چار نواسے ہیں ۔ ان میں ایک سلیم کا ہم جماعت ہے۔

 

         ان تمام کرداروں کے ذریعے مولوی نذیر احمد نے ہمارے معاشرے کاکا ایسا نقشہ کھینچا ہے  جو بالکل حقیقت نظر آتا ہے ۔ جس سے مولوی نذیر احمد معاشرے کی اصلاح کرتے ہیں۔

         اس ناول میں نصوح اپنی اولاد کو مسائل سے نکالنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے ۔ اور ان کو تمام مسائل اور برائیوں سے نکال کر اچھی زندگی کی طرف لانا چاہتا ہے ۔ چھوٹے بچوں کے کرداروں میں بچے اس کی بات مان لیتے ہیں ہیں ۔ لیکن اس کے بڑی اولاد کے کردار اس کی بات ماننے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ اس کا بڑا بیٹا جنگ کے دوران زخمی حالت میں واپس آجاتا ہے ۔ جو گھر سے بھاگ کر گیا ہوتا ہے ۔ اور واپس آ کر فوت ہو جاتا ہے ۔

 

         مولوی نذیر احمد اپنے اس ناول کے کرداروں کے ذریعے برے اخلاق سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اور اس ناول کے کرداروں کے ذریعے بچوں کو اچھی بات کی تلقین گئی ہے ۔ اور ان کرداروں کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ کس طرح گھریلو حالات کو سنبھالا جائے اور مسائل کا حل نکالا جائے آئے ۔ مولوی نذیر احمد کے اس ناول کے کردار ہمارے معاشرے کو برائیوں سے بچا کر راہ راست پر لانے کی تلقین کرتے ہیں۔

 

نتیجہ :

        مولوی نذیر احمد کے ناول ”توبتہ النصوح “ کے مطالعہ کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مولوی نذیر احمد نے اس ناول کے ذریعے ہمارے معاشرے کا ایک نقشہ کھینچا ہے ۔ اور جس کے ذریعہ مولوی نذیر احمد اس معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں ۔ اور ہمیں بتاتے ہیں  کہ گھریلو حالات ، اور مسائل کو کس طرح ٹھیک کیا جائے۔ اور اپنی اولاد کی کس طرح اصلاح کی جائے۔

پریم چند کے افسانے کفن کا فنی جائزہ

 

 پریم چند کے افسانے کفن کا فنی جائزہ۔

 

پریم چند کا یہ افسانہ  ”کفن “ اردو افسانے کے ارتقاء میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس افسانے نے کفن جائزہ ملاحظہ کیجئے :

 

·     کردار نگاری :

            یہ افسانہ کردار نگاری کے لحاظ سے ایک خوبصورت افسانہ ہے جسے پریم چند کا شاہکار افسانہ کہا جا سکتا ہے ۔ یہ دونوں کیریکٹر طبقاتی المیہ کو اچھی طرح نمایاں کرتے ہیں۔ نفسیاتی زندگی پر حالات کے اثرات کتنے گہرے ہیں ۔ شراب پی کر مادھو بدھیا کے لیے روتا ہے ۔ لیکن پھر دونوں باپ بیٹا ناچنے اور گانے لگتے ہیں۔  انسان کی نفسیات میں کتنی تبدیلی ہو سکتی ہے ۔  اپنے جذبات کی آسودگی کے لئے فرد کو اپنا رہبر بنانا بھی پسند نہیں۔ آج ہر انسان کتنے تنہائی چاہتا ہے۔ اور اس تنہائی میں اپنے جذبات کو کس قدر آسودا کرنا چاہتا ہے ۔ اپنی آرزو کی تکمیل کی جاتی ہے ۔ انسان حالات سے شکست کھا کر کتنا چھوٹا اور کتنا کمزور نظر آتا ہے ۔ پریم چند نے بدھیا کی لاش اور کفن کا ذکر ہے ۔ لیکن یہ دراصل مادھو اور گھسو کی لاشوں کا ذکر ہے ۔ ان کے کفن کا سوال پیش نظر ہے ، یہ دونوں کردار پنی طبقاتی  زندگی کی پرچھائیوں کو نمایاں کر رہے ہیں۔

 

             موضوع کے اعتبارسے اس افسانے کی کہانی میں ایک مقامی دیہاتی مسئلہ پیش کیا گیا ہے۔  کفن کا کردار مثالی کردار ہے۔ ان میں ارتقاء کی صورت نظر نہیں آتی۔ ان کی آنکھوں کے سامنے  ترحم انگیز واقعات رونما ہوتے ہیں مگر ان کا ضمیر نہیں جاگتا ۔ ان کا یہ رویہ غیر فطری سا ہے ۔ صلہ رحمی کا تقاضہ بھی ان کے دل میں درد پیدا نہیں کرتا۔ البتہ مادھو کے اندر کبھی کبھی کوئی چنگاری بھڑک اٹھتی ہے۔ اس طرح اس کے کردار میں تبدیلی اور ارتقاء کی جھلک نظر آتی ہے جو لمحاتی  ہے۔

                   

        بدھیا خوشخصال اور اوصاف حمیدہ کی مالک ہے۔ جب بیاہ  کر ان کے گھر آئی تو گھر کا حال بدل گیا ۔ محنت مزدوری کرکے خود بھی کھاتی اور نکمےسسر اور خاوند کا بھی پیٹ بھرتی۔  کی مگر شوہر اورخسر کا برتاؤ ان کے ساتھ نہ صرف سفاکانہ اور غیر انسانی ہے بلکہ آلو کھا کر اور پانی پی کر الاؤ کے سامنے چادر اور کر سو جانا ،سے بے ضمیری تو پیدا ہوجاتی ہےمگر آلوکھا کر وہیں سو جانے کی کوئی منطقی وجہ پلاٹ کی تنظیم کے بارے میں سامنے نہیں آتی ۔ یہ پلاٹ کی کمزوری ہے ۔  

 

          افسانہ” کفن “کے مطالعہ کے دوران ہمارا واسطہ ایسے کرداروں کے ساتھ پڑتا ہے جو اپنی ذلیل ترین ارکات و سکنات کے باوجود اپنے ہر عمل کا جواز باآسانی پیش کرسکتے ہیں اور افسانے” کفن“ کے ذریعے جو  بات مصنف ہم تک  پہنچانا چاہتا ہے وہ بھی ہم تک پہنچانے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔

          مگر بقول مشرف احمد : ”جو چیز اس کہانی کو ایک بڑی کہانی بناتے ہیں وہ نہ صرف معاشرے کی تصویر کشی ہے اور غیر انسانی سطح پر زندگی گزارنے والے چند کردار ہیں بلکہ کہانی کی وہ اکائی ہے جس میں یہ سب عناصر اس طرح حل ہوگئے ہیں کہ ان میں سے  کسی عنصر کو الگ کرکے کہانی کو ایک عضویاتی کل کی شکل میں دیکھا ہی نہیں جا سکتا “۔

 

·     تجسس :

            اس افسانے میں تجسس بھی پایا جاتا ہے۔ افسانہ” کفن“ میں تجسس و جستجو کے عناصر بھرپور انداز میں پائے جاتے ہیں ۔ ”کفن “کی سرخی بذات خود ایک طوفان تجسس ہے ۔ پڑھنے والا سوچتا ہے کہ کفن کس کا ہوگا؟ تھوڑی دور جانے کے بعد جب بدقھیا کی فریادیں اور دل خراش صدائیں سننے میں آتی ہیں تو اس مقام پر ہمارے تجسس کو ایک نیا موڑ مل جاتا ہے کہ گھیسو اور مادھور اس کے دوا دارو کریں گے یا نہیں۔ ہم انہی سوالات و خدشات کے سمندر میں غوطے کھاتے رہے ہوتے ہیں کہ بات بدھیا کے رحم و کرم تک آن پہنچتا ہے ۔ چندا اکٹھا کرنے کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے اور پڑھنے والا سوچنے لگتا ہے کہ کوئی پیسے دے گا بھی یا نہیں ۔ پیسے ملنے کے بعد جب مادھو اور گھیسو چٹ پٹی کلیجیاں ، پوریاں ، شراب اور کچوریاں کے جام سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس سے پڑھنے والا تجسس و جستجو کی حیرت میں پڑ جاتا ہے۔ افسانے میں اس طرح کی غیر متوقع حالات و واقعات نے تجسس جستجو میں بے پناہ اضافہ کیا ہے جو افسانے کی دلکشی اور دلچسپی کا باعث بنا ہوا ہے۔

 

·     زبان وبیان:

                افسانہ ”کفن “کا زبان و بیان ہے کہ کہ ایسا کسی اور افسانے میں نہیں پایا جاتا ۔ جہاں تک مکالمے اور زبان و بیان کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں پریم چند کو بہت مہارت حاصل رہی ۔ ان کے افسانوں میں بے شک زبان و بیان کی سادگی پائی جاتی ہے لیکن اس سادگی میں بے تکلفی اور برجستگی کی کیفیت قاری کے دل و دماغ کو ایک طرح کی آسودگی بخشتی ہے ۔ اس سے بھی تاثر میں اضافہ ہوتا ہے۔  مکالمے ،کرداروں کے مقام اور مرتبے کے عین مطابق ہیں۔ دیہاتی زبان اور جاہلانہ مکالموں میں بھی پریم چند اپنی مہارت کا ثبوت  بہت اچھی طرح پیش کرتے ہیں۔ وہ کرداروں کی ذہنی سطح، موقع و محل اور ماحول کے تقاضوں کے پیش نظر زبان و بیان اور مکالموں کی ساخت رکھتے ہیں۔  ” کفن “ کے کرداروں کی گفتگو پریم چند کے مال فن کی آئینہ داری کرتی ہے۔ گھیسو کبھی کبھی معاشرتی قدروں اور رسم و رواج پر کوئی فقرہ مارتا بھی ہے ، جو دراصل پریم چند کا اپنا طنزیہ ہوتا ہے تو اس کے طرز ادائیگی  میں گھیسو کی فکری کم مائیگی اور ذہنی پستی صاف جھلکتی ہے۔ ایسے مواقع پر پریم چند کردار کے پیچھے بالکل چھپ جاتا ہے اور یہ امر اس کی فنی چابکدستی کی دلیل ہے ۔

 

·     مکالمہ نگاری:

                 افسانہ” کفن“ میں پریم چند نے مکالمہ نگاری کی بہت بڑی مہارت پیش کی ہے ۔ اس افسانے میں بھی مکالمے موقع و محل کے مطابق ادا کیے گیے ہیں۔ مختصر سوال و جواب نے افسانے کے مکالموں میں شستگی و برجستگی کے عناصر پیدا کر دیے ہیں۔ یہاں پریم چند نے کرداروں کے حسبِ حال مکالمہ نگاری کی ہے انہوں نے کرداروں کی ذہنی سطح اور سادہ لوحی کا خاص خیال رکھا ہے۔ گھیسو اور مادھو کی باہمی گفتگو سے واقعی یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی دیہات کے  دو ان پڑھ اور سادہ لوح انسان سوال و جواب کر رہے ہو۔ افسانہ نگار کا کمال یہ ہے کہ اس کے ان دونوں کرداروں کی گفتگو سے معاشی حالت کی بھی عکاسی اور ترجمانی ہوتی ہے۔

 

·     پلاٹ :

             اس افسانہ” کفن “میں اس کا پلاٹ بھی بہت اچھی طرح اور تمام اصولوں کے مطابق ہے ۔ اس میں موجود تمام حالات و واقعات ایک خاص تسلسل کے ساتھ رونما ہوتے ہیں ۔ افسانہ نگار نے کہانی کے اوقات کو زنجیر کی کڑیوں کی طرح باہم منسلک کر دیا ہے۔ اس لیے افسانے کے پلاٹ میں کسی قسم کا کوئی خلا نہیں ہے اور نہ ہی پلاٹ میں کسی قسم کا تضاد پایا جاتا ہے ۔ یہ پلاٹ کسی بھی قسم کی پیچیدگی اور الجھاؤ کا شکار نہیں ۔ حالات و واقعات کو سمجھنے میں پڑھنے والے کو زیادہ دماغ نہیں لگانا پڑتا ۔ پریم چند نے اس افسانے کا پلاٹ نہایت مہارت اور فن کاری سے ترتیب دے کر اپنی استادانہ صلاحیتوں کا ثبوت دیا ہے ۔

 

·     منظر نگاری:

             افسانہ ”کفن“ میں پریم چند نے منظر نگاری بھی بڑی مہارت سے کی ہے ۔ اس افسانےمیں افسانہ نگارنے منظر کشی کا ایک اعلی پائے کے افسانہ نگار ہونے پر مہرثبت  کر دی۔ منظر کشی کی یہ محاکات آج کی  مثال اس مقام سے دی جاسکتی ہے جب دونوں باپ بیٹا گھیسوں اور مادھوگرم گرم آلو جلدی جلدی کھاتے ہیں۔ پریم چند نے اس موقع پر نہایت باریک بین مصور کی طرح مورقع  نگاری سے کام لیا ہے ۔لفظی تصویر کشی کے حوالے سے گرم آلوکھاتے ہوئے آنکھوں سے آنسوؤں کا نکل آنا ناقابل فراموش منظر نگاری ہے۔

 

عمران خان نے اپنے حکوت میں کیا کیا کام کیے

  عمران _ خان   نےساڑھے _ تین _ سالوں _ میں _ کیا _ کیا .. ؟ 1 ⃣ - ہالینڈ کی حکومت سے   گستاخانہ خاکوں کی نماٸش کو رکوایا . 2 ...