·
تحریروانشا
:-
تحریر
کے معنی لکھنا اور انشا کے معنی لکھنے والا ۔ زبان کو مختلف علامتوں اور رموز (
جسے تحریری زبان کہتے ہیں ) کے ذریعے لکھنے کو تحریر کہتے ہیں ۔ یہ ایک مواصلاتی
ذریعہ ہے جس سے ہم پیغام رسائی اور معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں ۔
جب قلم کی نوک کاغذ پر
چلتی ہے تو حروف اور الفاظ جنم لیتے ہیں ۔ حروف اور الفاظ کے ملنے سے جملے وجود
میں آتے ہیں ۔ جملوں کی ترکیب اور ملاپ سے پیراگراف تشکیل پاتی ہیں ۔ اس طرح
ہزاروں الفاظ ،سینکڑوں جملے اور بیسیوں پیراگراف مل کر تحریر کا روپ دھارتے ہیں ۔
اس طرح ہم مختلف خط ، مضامین اور کتابیں ککھتے ہیں۔ لکھنے کے اس فن کو تحریر کہتے
ہیں۔
·
تحریروانشا
کی ظاہری خوبیاں:-
ہر
زبان کے کچھ ظاہری آداب ہوتے ہیں اور کچھ باطنی۔دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے
ہیں،تحریر و انشاء کی کچھ لفظ خوبیاں ہوتی ہیں اور کچھ حقیقی اور معنوی۔اس میں ہم
تحریروانشاء کے سات ظاہری خوبیاں بیان کی ہیں ۔ان کو اپنانے سے تحریر معیاری تصور
کی جائے گی اور ان خوبیوں کو اپناکرآپ ایک اچھے قلم کا تصور کیے جائیں گے ۔اور آپ
کی تحریر ایک کامیاب تحریر تصور کی جائے گی۔
۔۔۔اس کی سات خوبیاں مندرجہ ذیل ہیں
1. قواعد انشا
2. املا
3. رسم الخط
4. مکمل اور برمحل نقطے
5. پورے شوشے
6. صحیح جوڑ
7. علامات کا درست استعمال
·
ظاہری خوبیاں
کیا ہیں :-
ظاہری خوبیوں سے مراد
وہ خوبیاں جو کسی چیز کو باہر سے یا جسمانی طور پر بالکل ٹھیک نظر آئیں، اس کو
ظاہری خوبیاں کہتے ہیں۔ اور تحریر میں ظاہری خوبیوں سے مراد کہ لکھنے والے نے
تحریر کو ٹھیک ، قوعد کے ساتھ اور لفظوں اور جملوں کو ٹھیک طرح لکھا ہو ، تاکہ
پڑھنے والے کو مشکل نہ پیش آئے ۔
تحریر و انشاء کی ظاہری خوبیاں :
1. قواعد انشا
:-
تحریری
لکھتے وقت اس زبان کے قواعد و انشاء سے واقفیت ضروری ہے ۔ قواعد وانشاء کا موضوع
بہت طویل ہے۔جہاں ایک مثال پر اکتفا کریں گے۔کا ،کے، کی وغیرہ کے الفاظ مقرر کے
لئے اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے کے قلم کار کے لئے ۔مونث اور مذکر الفاظ کا مسئلہ
بھی قابل توجہ ہے ۔مثال کے طور پر لفظ' فراک ' مذکر ہے لیکن عموما مونث بولا جاتا
ہے۔ الفاظ لکھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ الفاظ کی تذکیر و تانیث ،ترکیب اور
مزاج سے واقف ہوں ۔اس طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حروف معنی کے استعمال،مبتدا و خبر
،فیل فائل میں مطابقت وغیرہ کہ کونین سے آگاہ ہوں ۔
2. املا :-
ہر لفظ کو ٹھیک ٹھیک لکھا جائے، یعنی اس میں
جتنے اور حروف آنے چاہیے اور جس ترتیب سے آنے چاہیے اسی طرح آئے ہو اور ان حرفوں
کے جوڑ پیوند بھی ٹھیک ہوں تو کہا جائے گا اس لفظ کا 'املا' درست ہے ۔اگر اس کے
خلاف ہوگا تو کہا جائے گا کہ املا غلط ہے املا کی تعریف یوں بھی کی گئی ہے : ،املا
لفظوں کی صحیح تصویر کھینچتا ہے ا اس کو یوں بھی کہا گیا ہے:, املا، لفظوں میں
حروف کے صحیح صحیح استعمال کا نام ہے ۔۔جو طریقہ ان حرفوں کو لکھنے کے لیے استعمال
کیا جاتا ہے وہ رسم خط کے کہلاتا ہے ۔ املا اور رسم الخط میں وہی نسبت ہے جو پھول
میں اور اس کے رنگ اور خوشبو میں پھول میں ہوتی ہے۔ پھول نہ ہو تو رنگ کا موجود
متعین نہ ہو پائے گا نہ خوشبوکو ٹھکانا ملے گا ۔ لکھنے میں املا ایسا ہی ہے جیسے
بولنے میں تلفظ اور رسم الخط ایسا ہے جیسے بولنے میں لب و لہجہ ۔
کسی بھی زبان کے لیے اور اس کے
لکھنے والوں کے لئے یہ فخر کی بات نہیں کہ معمولی معمولی لفظوں کو صحیح طور پر نہ
لکھا جائے یا ایک ہی لفظ کو کوئی کسی طرح لکھے اور کوئی کسی طرح اور یہ بات ٹھیک
معلوم نہ ہو کہ صحیح صورت کیا ہے؟
جس طرح بولنے والے کو لفظ کا تلفظ
معلوم ہونا چاہیے ۔اس طرح لکھنے والے کو لفظ کا املا معلوم ہونا چاہیے۔جس طرح قلم
کی جگہ پنسل بولنا صحیح نہیں اسی طرح قلم کو کلم لکھنا بھی درست نہیں ہوگا۔اگر ایک
شخص 'پان' کو 'بان' کہےتو کہا جائے گا ، کہ تلفظ بگڑ گیا۔ اسی طرح اگر چونا اور
اور کتھہ لکھا جائے تو کہاں جائے گا۔ کہ ااملا ہلط ہوگیا۔ کیوں کہ صحیح املا چونا
اور کتھا ہے۔
اضافت کی صورت میں لفظ کے آخر
میں حروف پر زیر آجاتا ہے ۔ یہ مانا ہوا قاعدہ ہے۔ منزل اور زندگی دو لفظ ہیں۔
اضافت کی صورت میں منزل مقصود لکھا جائے گا، مگر اس کو منزل بغیر زیر کے لکھا جائے تو ہر شخص یہی کہے گا کہ
املا ناقص ہو گیا .
اسی طرح کچھ لفظ ایسے ہیں جو ایک
معنی میں 'الف' سے اور ایک معنی میں 'ہ' سے صحیح ہیں ۔ اس کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ
جملے میں صحیح الفاظ کا استعمال کیا جائے آئے۔ بے احتیاطی کی وجہ سے معنی بدل سکتے
ہیں اور ختم بھی ہو سکتے ہیں۔ یعنی یہ ہو سکتا ہے کہ غلط املا کے سبب معنی ہیں
چوپٹ ہو جائیں۔ ایسے خاص الفاظ یہ ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔ آسیا : چکی آسیہ : فرون کی بیوی کا نام
۔۔۔۔۔۔۔ پارا : جس سے فارسی میں
سیماب کہتے ہیں۔ پارہ : ٹکرا
۔۔۔۔۔۔۔ چارا : جانوروں کی
خوراک کے کام آتے ہیں۔۔ چارہ : تدبیر
۔۔۔۔۔۔۔ نالا : ندی نالہ
۔۔ نالہ : نالہ و فریاد
اس لیے یہ بات ضروری ہے کہ کہ لکھنے
والے کو ہر لفظ کا صحیح عملہ معلوم ہو اس کے ساتھ ساتھ صحت املا سے متعلق ضروری باتیں بھی اس کے علم میں ہوں۔
3. رسم الخط :-
اردو
میں دو خط رائج ہیں : خط نسخ اور خط نستعلیق ۔ اس معنی میں خط اصطلاحی لفظ ہے ۔
لکھاوٹ کی کسی خاص روش کے لیے اس لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ ہر زبان کا رسم الخط
تو ایک ہی ہوتا ہے مگر لکھاوٹ کے انداز ایک سے زیادہ ہو سکتے ہیں ۔ ایک مثال سے اس کا اچھی طرح اندازہ کیا جاسکتا
ہے ۔ انگریزی کی چھپی ہوئی کتابوں کو آپ دیکھتے ہیں ہوں گے اور پڑھتے بھی ہوں گے
اور پھر خود بھی انگریزی عبارت کو اپنے قلم سے لکھتے ہوں گے ۔ دونوں جگہ لکھاوٹ کا ڈھنگ مختلف ہوتا ہے رسم
الخط ایک ہی ہے ، مگر انداز دو ہیں ۔
اردو میں کسی زمانے میں ٹائپ کی چھپائی خط
نسخ میں ہوتی تھی ۔ باقی سب کاموں کے لیے خط نستعلیق کا استعمال کیا جاتا تھا ۔ اب
تو کمپوٹر آگیا ہے، کمپوزنگ نستعلیق ہی
میں ہوتے ہیں ۔ روزمرہ کے سارے کام (خط لکھنا ،حساب کتاب وغیرہ ) اسی خط میں انجام
پاتے ہیں۔ طالب علم شروع ہی سے خط نستعلیق کو سیکھتا ہے اور پھر عمر بھر اسی خط
میں سب کچھ لکھتا رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صحت املا میں اصل اہمیت اسی خط کی ہے،
ایک خط اور تھا ۔ جس کا نام تھا "خط شکستہ " ۔ دفتروں میں اس کا چلن
تھا۔ تیز لکھائی کے لیے یہ کارآمد تھا ۔ اسم لمبی لمبی آڑی ترچھی کشی ہوتی تھی ۔
اور بہت سے حروف ایک دوسرے سے ملا کر لکھے جا سکتے تھے ۔ اب اس کا صرف نام رہ گیا
ہے ۔ وہ دفتر ہی نہیں رہے ۔ یہ جو بہت سے لوگ لکھتے لکھتے گھسیٹ میں لکھنے لگتے
ہیں ، یہ اسی خط شکستہ کا اثر ہے وہ خط تو اب
نہیں رہا ، لیکن اس کے بعد اثرات عام لکھائی باقی رہ گئے ہیں۔
4. مکمل اور درست نقطے :-
لفظ مجموعہ ہوتا ہے دو
حرفوں کا، وہ دو حروف ہو یا زیادہ ۔ ایسے حروف زیادہ ہیں جو ملا کر لکھے
جا سکتے ہیں ۔ حروفوں کو ایک دوسرے سے ملا کر لکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کو چھوٹے
چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں لایا جائے ۔ جیسے ایک حروف ہے " ب " ۔ جب یہ
لفظ کے آخر میں آتا ہے تو اس کو اسی طرح لکھا جاتا ہے۔ جیسے اب ، جب مگر جب یہ
شروع میں یا درمیان میں آتا ہے تو الگ الگ حروفوں کے ساتھ اس کی الگ الگ شکلیں بن
جاتی ہیں ۔ جیسے"بت، بج، بس ۔ اب اس حرف کی چار شکلیں ہوئیں ۔ بہت سے حرف اسی
طرح نہ شکلیں بدلتے ہیں ۔ کسی لفظ میں بس دو حرف تو عام طور پر اس کے لکھنے
یا پڑھنے میں الجھن نہیں ہوتی ۔ اگر کوئی
لفظ تین یا چار یا اور زیادہ عرفوں کا مجموعہ ہو تو الجھن پیدا ہو سکتی ہے ۔ مثلا
ایک لفظ ہے" بنتا" ۔ اس میں چار
حرف ہیں ۔ شروع کے تین حروف صرف (ب ن ت) ایک ہی گروپ کے ہیں ۔ ان کے جوڑ ایک ہی کی
طرح لگتے ہیں ، یعنی یکساں ششوں کی صورت میں ان کو لکھا جاتا ہے ۔ بس نقتوں کی مدد
سے ان کو پہچانا جاتا ہے ۔ اب اگر نقطے پورے پورے نہ لگائے جائیں یا صحیح جگہ پر
نہ ہوں تو ظاہر ہے کہ لفظ کی لکھاوٹ غلط ہو جائے گی ۔ کوئی شخص اٹکل سے پڑھ لے تو
پڑھ لے ورنہ عام طور پر اس لفظ کو غلط ہی پڑھا جائے گا ۔ غلط پڑھا گیا تو معنی بدل جائے گئیں یا چوپٹ
ہو جائیں گے ۔ جیسے ایک لفظ ہے نبی (ن ب ی) بن سکتا ہے ۔ یہ جیسے ایک لفظ ہے
"رجحان " اس کو با آسانی رجحان پڑھا جا سکتا ہے ۔ اس لئے تحریر کی
خصوصیت میں شامل ہے کہ کہ نقطوں کو ٹھیک طرح لکھا جائے اور اپنی جگہ پر لکھا جائے
۔
5. پورے شوشے :-
جلدی میں اپنی کاپی میں
آپ جو لکھیں اور جیسے لکھیں دیکھیں وہ آپ کی مرضی۔ لیکن جب کوئی خط لکھا جائے ، کوئی مضمون تحریر
کیا جائے ، امتحان کی کاپی میں جوابات لکھے جائیں یا اور کچھ لکھا جائے جو سب کے
لئے ہو تو اس کا لحاظ رکھنا چاہئے کہ وہ حرفوں کے جوڑ قاعدے کے مطابق ہوں اور شوشے
بھی ٹھیک ٹھاک ہوں ۔ یہ نہ ہو کہ" صبح "کو "صج" یا "کسنا " کو "کنا" لکھا
جائے اور یہ بھی نہ ہو کہ آپ کی تحریر پٹواری کا اندراج بن کر رہ جائے ، جس کو وہ
خود ہی پڑتا ہے یا وہ ان حکیم صاحب کا نسخہ ہوں جن کے لکھے کو ان کے خاص عطار کے
سوا اور کوئی نہیں پڑھ سکتا ۔
ہمارے گاؤں میں کوئی شخص کسی کو بد
دعا دے رہا ہوں یا پھر برا بھلا کہہ رہا
ہوں تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ اچھے خاصے آدمی کا چہرہ بدل جاتا ہے ، اور منہ بن جاتا
ہے ۔ زبان کے بگڑنے سے جس طرح چہرہ بگڑ جاتا ہے، اسی طرح تحریر کے بگاڑ سے لکھنے
والے کی شخصیت گہنا جاتی ہے ۔ پڑھنے والے کی آنکھیں فورم دل تک یہ بات پہنچاتی ہے
کہ یہ شخص یا تو اول جلول ہے یا بہت بے پرواہ ہے یا یہ کہ اس کے دل میں مکتوب الیہ
کے لئے لحاظ اور مروت کچھ کم ہے ۔ سب کا خط اچھا ہو ، اس کی امید نہیں کرنا چاہیے
،مگر یہ مختلف بات ہے ۔ خط اچھا نہ ہو یہ تو ایک بات ہوئی اور اول جلول پن کے ساتھ
لکھنا دوسری بات ہے ۔ خط جیسا بھی ہو اگر لفظ میں شامل اور حرفوں کی ترتیب درست ہے
جوڑ ٹھیک ہیں ، شوشے پورے ہیں، نکتہ صحیح جگہ پر ہیں اور جلد بازی یا بے پروائی کا پیدا کیا ہوا آڑاترچھا پن نہیں
ہے تو یہ کافی ہے ۔
6. صحیح جوڑ : -
دو لفظوں کو بلاوجہ ملا کر نہیں لکھنا
چاہئے ۔ اردو میں شوشے،جوڑ، نقطے،حرفوں کی
مختلف صورتیں ،یہ سب اس قدر اور اس طرح ہیں کہ ان سب کے ساتھ دو یا زیادہ لفظوں کو
ملا کر لکھنا،نگاہ کو مزید آزمائش میں مبتلا کرنا اور طالب علم کو حیران کرنا ہے۔
لکھنے اور پڑھنے کی آسانی اس میں ہے کہ لفظوں کو ملا کر نہ لکھا جائے۔ اس سے پڑھنے
میں آسانی اور لکھنے میں سادگی کا فائدہ حاصل ہوگا۔ زبان صرف اچھے خاصے پڑھے لکھے
لوگوں کے لئے نہیں ہوتی،وہ طالب علموں اور کم خواندہ لوگوں کے لئے بھی ہوتی ہے۔
ایک لکھا پڑھا آدمی ' نیکبخت' کہ پڑھنے میں الجھن ہیں محسوس کرے گا ،مگر ابتدائی
درجوں کے طلبہ اور معمولی سطح کے آدمیوں کو اس کو پڑھنے میں الجھن سے آنکھیں چار
کرنا پڑیں گی ۔ انجمن ترقی اردو نے یہی تحقیق تھا کہ ، مرکب لفظ جو دو یا زیادہ
لفظوں سے بنے ہوں آپس میں ملا کر نہ لکھے جائیں ۔ بلکہ ہمیشہ الگ الگ لکھے جائیں ۔
اس کی پابندی کرنی چاہیے ۔ ذیل میں چند مشہور اصول لکھے جاتے ہیں جن کی عام طور پر
خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔
1.'بہ ' لفظ کے شروع میں آئے یا درمیان میں اس کو الگ
لکھنا چاہیے ۔مثلا : بہ خدا ، بہ وغیرہ ۔ البتہ بجز ، بجائے، بہم وغیرہ ، یہ لفظ
مستثنٰی الفاظ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ کیوں کے یہ مفرد لفظوں کی طرح بن چکے ہیں ۔ ان
کو اسی طرح لکھا جائے گا۔
2. 'بے ' کو بھی کلمے سے ملا کر
نہیں لکھنا چاہئے جیسے: بے دماغ، بے وفا، بےلگام وغیرہ ۔
3.' نہ ' کو بھی ملا کر نہیں
لکھنا چاہئے۔ جیسے : نہ لکھو، نہ پوچھو ،نہ کہو وغیرہ۔
7. علامات کا درست استعمال :-
ہمارے
ہاں چونکہ تحریر و تحقیق و تصنیف کی تربیت کا رواج نہیں اس لئے بعض الفاظ کے مجموعے کو 'جملہ ' اور چند
یا خاص جملوں کے مجموعے کو' مضمون' کا نام دیا جاتا ہے۔ آج کل اردو میں لکھی جانے
والی اکثر تحریروں میں آپ کو پورے پورے مضامین میں کسی قسم کی علامت کا استعمال
نظر نہیں آئے گا۔ جملہ شروع ہوگا تو پھر پیراگراف کے آخر میں ایک ختمہ (.) ملے گا
۔ یہ مزاج اخبار کا بھی ہے اور رسائل کا بھی۔ تحریر کی علامت ( سکتہ ،ختمہ، نداہیہ
غیرہ ) تحریر کا سولہ سنگھار ( میک اپ) ہیں ۔ ان سے تحریر میں خوبصورتی اور کشش
پیدا ہوتی ہے۔ اس سے قلم کار کا مدعا بیان کرنا آسان ہوتا ہے۔ انگریزی ادب میں ان
تمام علامات کے اصول اور معیارات مقرر ہیں۔ اور ان کے مطابق کی ان علامات کو
تحریروں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ان علامات کے استعمال کا معاملہ اس قدر حساس ہے
کہ محض معمولی سے ردوبدل سے جملے کا مفہوم بدل سکتا ہے۔ اس لئے ان علامات کو
پابندی کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے۔
خلاصہ :-
تحریر
انشاء کی ظاہری خوبیوں میں، قواعد انشا ،املا ،رسم الخط ،مکمل اور برمحل نقطے
،پورے شوشے ،صحیح جوڑ اور علامات کا درست استعمال کی خوبی شامل ہیں ۔ یہ خوبی و
تحریر کو درست، قواعد کے مطابق اور پڑھنے کے قابل بناتی ہیں ۔
ان خوبیوں سے ظاہر ہے کہ تحریر کو مطابق
اطابق لکھا جائے۔ املا کا خاص طور پر خیال رکھا جائے، کیونکہ املا کے بغیر معنی واضح
نہیں ہوتے۔ نقطوں کو بھی دیکھا جائے۔ ان کو مکمل اور درست جگہ پر پر لکھا جائے
۔حرفوں کو جوڑ کر اور قوائد کے مطابق جائے ، تاکہ قاری کو پڑھنے میں پریشانی نہ ہو
۔ اور دو لفظوں کو جوڑ کر نہ لکھا جائے بلکہ ان کو الگ الگ رکھا جائے آئے، کیوں کہ
پڑھنے والا صرف ماہر تعلیم ہی نہیں بلکہ طالب علم بھی ہو سکتا ہے ۔ علامات کا بھی
ٹھیک طرح خیال رکھا جائے ،علامات کے بغیر یہ جاننا مشکل ہوتا ہے کہ کون سا جملہ
کہا اور کیسے ختم ہوتا ہے ۔ اس لیے ختنہ،سکتہ ،اور ندائیہ وغیر کا خیال رکھا جائے
۔ اور ان کو جملوں میں ٹھیک جگہ استعمال کیا جائے۔
یہی تمام تحریر انشاء کی ظاہری خوبیاں
ہیں۔ جن کے استعمال سے تحریر مکمل، درست اور خوبصورت نظر آتی ہے ۔ اور پڑھنے والے
کو تحریر پڑھنے میں مشکل پیش نہیں آتی ۔ اور اگر ان کا استعمال نہ کیا جائے تو پھر
وہ تحریر پڑھنے کے قابل نہیں رہتی، جو پڑھنے والے کو مشکل میں ڈال دیتی ہے ۔
نتیجہ :-
ان تمام ظاہری خوبیوں کے مطالعے کے بعد
ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں، کہ ان ظاہری خوبیوں اور درست طریقے کے استعمال کے بغیر
تحریر پڑھنے کے قابل نہیں ہوتی اور اگر ان کی خوبیوں کے مطابق تحریر کو لکھا جائے
،تو یہ ظاہری خوبیاں تحریر کو خوبصورت، درست اور پڑھنے کے قابل بنا دیتی ہیں ۔ جس
سے پڑھنے والے کو مشکل پیش نہیں آتی۔ اور آسانی سے ہماری لکھی گی تحریر کو پڑھ
سکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment