پریم چند کے افسانے کفن کا فنی جائزہ۔
پریم چند کا یہ
افسانہ ”کفن “ اردو افسانے کے ارتقاء میں
ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس افسانے نے کفن جائزہ ملاحظہ کیجئے :
·
کردار
نگاری :
یہ افسانہ کردار نگاری کے لحاظ سے ایک خوبصورت افسانہ ہے جسے پریم چند کا
شاہکار افسانہ کہا جا سکتا ہے ۔ یہ دونوں کیریکٹر طبقاتی المیہ کو اچھی طرح نمایاں
کرتے ہیں۔ نفسیاتی زندگی پر حالات کے اثرات کتنے گہرے ہیں ۔ شراب پی کر مادھو
بدھیا کے لیے روتا ہے ۔ لیکن پھر دونوں باپ بیٹا ناچنے اور گانے لگتے ہیں۔ انسان کی نفسیات میں کتنی تبدیلی ہو سکتی ہے ۔ اپنے جذبات کی آسودگی کے لئے فرد کو اپنا رہبر
بنانا بھی پسند نہیں۔ آج ہر انسان کتنے تنہائی چاہتا ہے۔ اور اس تنہائی میں اپنے
جذبات کو کس قدر آسودا کرنا چاہتا ہے ۔ اپنی آرزو کی تکمیل کی جاتی ہے ۔ انسان
حالات سے شکست کھا کر کتنا چھوٹا اور کتنا کمزور نظر آتا ہے ۔ پریم چند نے بدھیا
کی لاش اور کفن کا ذکر ہے ۔ لیکن یہ دراصل مادھو اور گھسو کی لاشوں کا ذکر ہے ۔ ان
کے کفن کا سوال پیش نظر ہے ، یہ دونوں کردار پنی طبقاتی زندگی کی پرچھائیوں کو نمایاں کر رہے ہیں۔
موضوع کے اعتبارسے اس افسانے کی کہانی میں ایک مقامی دیہاتی مسئلہ پیش کیا
گیا ہے۔ کفن کا کردار مثالی کردار ہے۔ ان
میں ارتقاء کی صورت نظر نہیں آتی۔ ان کی آنکھوں کے سامنے ترحم انگیز واقعات رونما ہوتے ہیں مگر ان کا
ضمیر نہیں جاگتا ۔ ان کا یہ رویہ غیر فطری سا ہے ۔ صلہ رحمی کا تقاضہ بھی ان کے دل
میں درد پیدا نہیں کرتا۔ البتہ مادھو کے اندر کبھی کبھی کوئی چنگاری بھڑک اٹھتی
ہے۔ اس طرح اس کے کردار میں تبدیلی اور ارتقاء کی جھلک نظر آتی ہے جو لمحاتی ہے۔
بدھیا خوشخصال اور اوصاف حمیدہ کی مالک ہے۔ جب بیاہ کر ان کے گھر آئی تو گھر کا حال بدل گیا ۔ محنت
مزدوری کرکے خود بھی کھاتی اور نکمےسسر اور خاوند کا بھی پیٹ بھرتی۔ کی مگر شوہر اورخسر کا برتاؤ ان کے ساتھ نہ صرف
سفاکانہ اور غیر انسانی ہے بلکہ آلو کھا کر اور پانی پی کر الاؤ کے سامنے چادر اور
کر سو جانا ،سے بے ضمیری تو پیدا ہوجاتی ہےمگر آلوکھا کر وہیں سو جانے کی کوئی
منطقی وجہ پلاٹ کی تنظیم کے بارے میں سامنے نہیں آتی ۔ یہ پلاٹ کی کمزوری ہے
۔
افسانہ” کفن “کے مطالعہ کے دوران ہمارا واسطہ ایسے کرداروں کے ساتھ پڑتا ہے
جو اپنی ذلیل ترین ارکات و سکنات کے باوجود اپنے ہر عمل کا جواز باآسانی پیش
کرسکتے ہیں اور افسانے” کفن“ کے ذریعے جو
بات مصنف ہم تک پہنچانا چاہتا ہے
وہ بھی ہم تک پہنچانے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔
مگر بقول مشرف احمد : ”جو چیز اس کہانی کو ایک بڑی کہانی بناتے ہیں وہ نہ
صرف معاشرے کی تصویر کشی ہے اور غیر انسانی سطح پر زندگی گزارنے والے چند کردار
ہیں بلکہ کہانی کی وہ اکائی ہے جس میں یہ سب عناصر اس طرح حل ہوگئے ہیں کہ ان میں
سے کسی عنصر کو الگ کرکے کہانی کو ایک
عضویاتی کل کی شکل میں دیکھا ہی نہیں جا سکتا “۔
·
تجسس :
اس افسانے میں تجسس بھی پایا جاتا ہے۔ افسانہ” کفن“ میں تجسس و جستجو کے
عناصر بھرپور انداز میں پائے جاتے ہیں ۔ ”کفن “کی سرخی بذات خود ایک طوفان تجسس ہے
۔ پڑھنے والا سوچتا ہے کہ کفن کس کا ہوگا؟ تھوڑی دور جانے کے بعد جب بدقھیا کی
فریادیں اور دل خراش صدائیں سننے میں آتی ہیں تو اس مقام پر ہمارے تجسس کو ایک نیا
موڑ مل جاتا ہے کہ گھیسو اور مادھور اس کے دوا دارو کریں گے یا نہیں۔ ہم انہی
سوالات و خدشات کے سمندر میں غوطے کھاتے رہے ہوتے ہیں کہ بات بدھیا کے رحم و کرم
تک آن پہنچتا ہے ۔ چندا اکٹھا کرنے کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے اور پڑھنے والا سوچنے
لگتا ہے کہ کوئی پیسے دے گا بھی یا نہیں ۔ پیسے ملنے کے بعد جب مادھو اور گھیسو چٹ
پٹی کلیجیاں ، پوریاں ، شراب اور کچوریاں کے جام سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس سے
پڑھنے والا تجسس و جستجو کی حیرت میں پڑ جاتا ہے۔ افسانے میں اس طرح کی غیر متوقع
حالات و واقعات نے تجسس جستجو میں بے پناہ اضافہ کیا ہے جو افسانے کی دلکشی اور
دلچسپی کا باعث بنا ہوا ہے۔
·
زبان
وبیان:
افسانہ ”کفن “کا زبان و بیان ہے کہ کہ ایسا کسی اور افسانے میں نہیں پایا
جاتا ۔ جہاں تک مکالمے اور زبان و بیان کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں پریم چند کو
بہت مہارت حاصل رہی ۔ ان کے افسانوں میں بے شک زبان و بیان کی سادگی پائی جاتی ہے
لیکن اس سادگی میں بے تکلفی اور برجستگی کی کیفیت قاری کے دل و دماغ کو ایک طرح کی
آسودگی بخشتی ہے ۔ اس سے بھی تاثر میں اضافہ ہوتا ہے۔ مکالمے ،کرداروں کے مقام اور مرتبے کے عین
مطابق ہیں۔ دیہاتی زبان اور جاہلانہ مکالموں میں بھی پریم چند اپنی مہارت کا
ثبوت بہت اچھی طرح پیش کرتے ہیں۔ وہ
کرداروں کی ذہنی سطح، موقع و محل اور ماحول کے تقاضوں کے پیش نظر زبان و بیان اور
مکالموں کی ساخت رکھتے ہیں۔ ” کفن “ کے
کرداروں کی گفتگو پریم چند کے مال فن کی آئینہ داری کرتی ہے۔ گھیسو کبھی کبھی
معاشرتی قدروں اور رسم و رواج پر کوئی فقرہ مارتا بھی ہے ، جو دراصل پریم چند کا
اپنا طنزیہ ہوتا ہے تو اس کے طرز ادائیگی
میں گھیسو کی فکری کم مائیگی اور ذہنی پستی صاف جھلکتی ہے۔ ایسے مواقع پر
پریم چند کردار کے پیچھے بالکل چھپ جاتا ہے اور یہ امر اس کی فنی چابکدستی کی دلیل
ہے ۔
·
مکالمہ
نگاری:
افسانہ”
کفن“ میں پریم چند نے مکالمہ نگاری کی بہت بڑی مہارت پیش کی ہے ۔ اس افسانے میں
بھی مکالمے موقع و محل کے مطابق ادا کیے گیے ہیں۔ مختصر سوال و جواب نے افسانے کے
مکالموں میں شستگی و برجستگی کے عناصر پیدا کر دیے ہیں۔ یہاں پریم چند نے کرداروں
کے حسبِ حال مکالمہ نگاری کی ہے انہوں نے کرداروں کی ذہنی سطح اور سادہ لوحی کا
خاص خیال رکھا ہے۔ گھیسو اور مادھو کی باہمی گفتگو سے واقعی یہ محسوس ہوتا ہے کہ
جیسے کسی دیہات کے دو ان پڑھ اور سادہ لوح
انسان سوال و جواب کر رہے ہو۔ افسانہ نگار کا کمال یہ ہے کہ اس کے ان دونوں
کرداروں کی گفتگو سے معاشی حالت کی بھی عکاسی اور ترجمانی ہوتی ہے۔
·
پلاٹ :
اس افسانہ” کفن
“میں اس کا پلاٹ بھی بہت اچھی طرح اور تمام اصولوں کے مطابق ہے ۔ اس میں موجود
تمام حالات و واقعات ایک خاص تسلسل کے ساتھ رونما ہوتے ہیں ۔ افسانہ نگار نے کہانی
کے اوقات کو زنجیر کی کڑیوں کی طرح باہم منسلک کر دیا ہے۔ اس لیے افسانے کے پلاٹ
میں کسی قسم کا کوئی خلا نہیں ہے اور نہ ہی پلاٹ میں کسی قسم کا تضاد پایا جاتا ہے
۔ یہ پلاٹ کسی بھی قسم کی پیچیدگی اور الجھاؤ کا شکار نہیں ۔ حالات و واقعات کو
سمجھنے میں پڑھنے والے کو زیادہ دماغ نہیں لگانا پڑتا ۔ پریم چند نے اس افسانے کا
پلاٹ نہایت مہارت اور فن کاری سے ترتیب دے کر اپنی استادانہ صلاحیتوں کا ثبوت دیا
ہے ۔
·
منظر
نگاری:
افسانہ ”کفن“ میں پریم چند نے منظر نگاری بھی بڑی
مہارت سے کی ہے ۔ اس افسانےمیں افسانہ نگارنے منظر کشی کا ایک اعلی پائے کے افسانہ
نگار ہونے پر مہرثبت کر دی۔ منظر کشی کی
یہ محاکات آج کی مثال اس مقام سے دی
جاسکتی ہے جب دونوں باپ بیٹا گھیسوں اور مادھوگرم گرم آلو جلدی جلدی کھاتے ہیں۔
پریم چند نے اس موقع پر نہایت باریک بین مصور کی طرح مورقع نگاری سے کام لیا ہے ۔لفظی تصویر کشی کے حوالے
سے گرم آلوکھاتے ہوئے آنکھوں سے آنسوؤں کا نکل آنا ناقابل فراموش منظر نگاری ہے۔
No comments:
Post a Comment