سمندر میں
اترتا ہوں تو کانپیں
ٹانگ جاتی ہیں
تری آنکھوں
کو پڑھتا ہوں
تو کانپیں ٹانگ
جاتی ہیں
تمہارا نام
لکھنے کی اجازت
چھن گئی جب
سے
کوئی بھی
چہرہ پڑھتا ہوں تو
کانپیں ٹانگ جاتی ہیں
ارادہ روز
کرتا ہوں کہ اُن
سے حالِ دل
کہہ دوں
مگر وہ
روبرو آئیں تو
کانپیں ٹانگ جاتی ہیں
ناجانے ہو
گیا ہوں اس
قدر حساس میں
کب سے
کسی سے
بات کرتا ہوں
تو کانپیں ٹانگ
جاتی ہیں۔
تری یادوں
کی خوشبو کھڑکیوں
میں رقص کرتی
ہے
تیرے غم
میں سلگتا ہوں
تو کانپیں ٹانگ
جاتی ہیں۔
میں سارا
دن بہت مصروف
رہتا ہوں مگر جونہی،
قدم چوکھٹ
پہ رکھتا ہوں
تو کانپیں ٹانگ
جاتی ہیں ۔
ہر اک
مفلس کے ماتھے
پر الم کی
داستانیں ہیں
کوئی چہرہ
بھی پڑھتا ہوں
تو کانپیں ٹانگ
جاتی ہیں۔
بڑے لوگوں
کے اونچے، بدنما
اور سرد محلوں
کو
غریب آنکھوں
سے تکتا ہوں
تو کانپیں ٹانگ
جاتی ہیں۔۔
میں ہنس
کے جھیل لیتا
ہوں جدائی کی
سبھی رسمیں
گلے جب
اسکے لگتا ہوں تو
کانپیں ٹانگ جاتی ہیں۔
ہزاروں موسموں
کی حکمرانی ہے
میرے دل پر
No comments:
Post a Comment