Thursday, March 10, 2022

پریم چند کے افسانے کفن کا فکری جائزہ

 

Ø پریم چند کے افسانے کفن کا فکری جائزہ۔

افسانہ کفن میں پریم چند نے جن معاشرتی ناسور پر اپنے فن کا نشتر چبھویا اس میں سارے فاسد مادے اور کریہہ مواد کو بہہ جانے پر مجبور کردیا ہے ۔  غربت و  افلاس اور پست ہمتی کے ہاتھوں معاشرتی تقدیس کے ردا جس بری طرح سے تار تار ہو گئی ہے ۔ اس کی جھلک اس افسانے میں ملتی ہے ۔   افسانہ نگار نے اسی معاشرتی کجی اور سماجی بد ہیئتی کی طرف توجہ دلائی ہے .

            پریم چند کے بعد کے افسانہ نگاروں نے حقیقت نگاری کا سلیقہ سیکھا ۔ اور یہی افسانہ ترقی پسند افسانہ نگاری کے لئے ایک احساس بن کر سامنے آیا۔

کفن میں پریم چند حقیقت کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ اور یہ بتاتے ہیں کہ بھوک اور ناداری کی انتہا انسان کو صوانیت کی سطح پر لے آتی ہے اور وہ رشتوں کا احساس بھی بھول جاتے ہیں۔  جب بدھیا زچگی کے درد میں مبتلا ہے ۔ اور مرنے کے قریب ہے لیکن اس کے قریب ترین رشتہ داری اس کا خاونداور سسر کو  اس کی مدد کرنے کا سوچ بھی نہیں رہے۔

 

بے حسی :

             جاڑوں کی گہری طویل رات ہے ۔ مادھو کی بیوی زچگی کہ درد میں مبتلا ہے جس جان کنی اور کرب میں مبتلا ہے وہ اعصاب شکن ہے ۔ گھیسو اور مادھو، باپ بیٹا ،اس کی مدد کرنے کا سوچ بھی نہیں رہےرہے” مرنا ہے تو مر کیوں نہیں جاتی “جہاں اس اعصاب شکن دباؤ سے نجات حاصل کرنے کی خواہش کا عکاس ہے، وہاں یہ فقرہ  بے چارگی اور بے بسی کو قبول کر کے کوشش اور کاوش سے دست کش ہو چکے ہونے کی  الم ناک کفیت کا بھی ظاہر کر رہا ہے (محنت کرنے والے کسانوں کی حالت ان کام چور کاہلوں سے مختلف نہیں، اس لیے بھی اس میں کام کرنے کی کوشش ، تمنا اور محرک باقی نہیں رہ گیا) ۔دونوں پر ایسی بے حسی طاری ہے کہ اندر مادھو کی بیوی موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے اور جھونپری کے باہر دونوں باپ بیٹا چوری کے آلو بھون کر پیٹ کی آگ بجھانے میں مشغول ہیں ۔

           گھیسو بڑے رسان سے تبصرہ کرتا ہے” معلوم ہوتا ہے  بچے گی  نہیں“ گویا کسی کا مر جانا کوئی بات ہی نہیں . وہ مادھو کو کہتا  ہے” سارا دن تڑپتے ہو گیا ہے جا دیکھ تو آ “ مادھو انکار کر دیتا ہے۔  اس پر گھیسوکہتا ہے” تو بڑا بے درد ہے۔ “ بہ ظاہر مادھو کا کچھ نہ کرنے کا رویہ ” بےدردی “کا رویہ  ہی ہے۔ ہر دیکھنے والا والا اور سننے والا یہی رائے قائم کرے گا مادھو درحقیقت بہت بیدرد ہے نہیں۔                        

            اس کی ذہنی حالت بے بسی کا پیدا کردہ ہے بے  بسی کی نہیں۔ درد د  تو وہ محسوس کرتا ہے۔ اور کہتا ہے” تم مجھ سے اس کا تڑپنا نا اور ہاتھ پاؤں پٹکنا دیکھا نہیں جاتا۔ “پریم چند نے لکھا ہے”(وہ) دردناک اک لہجے میں بولا“مرنا ہے تو تو مر کیوں نہیں جاتی؟دیکھ کر کیا آؤں “اسے معلوم ہے پیسہ ہے نہیں. علاج معالجے کے لئے بھی ان کی ہڈ حرامی میں اور کام چوری وبے غیرتی کی شہرت کی بنا پر درکار پیسہ ملنا ممکن نہیں۔ درکار طبی مدد اور دایہ کو وہ معاوضہ دینے کے لئے پاس کچھ نہیں۔ وہ کرے تو کیا کرے؟پھر اوپر سے وہ تو ہمات کے اسیر بھی ہیں۔ گھیسو کا فقرہ” جا کر دیکھ تو کیا حالت ہے؟اس کی چڑیل کا پھنساؤ  ہوگا  ۔ اور کیا “اس حقیقت کی نشاندہی کر رہا ہے وہ وہ ایسے انسان ہیں جو شرف شرف انسانیت بہت سے گر چکے ہیں  اور اور صرف صرف جسمانی و حیوانی سطح پر زندہ

ہیں بیٹا اٹھنا نہیں چاہتا کہ کہیں نہیں باپ سارےالو ہڑپ نہ کر جائے۔ پریم چند نے لکھا ہے” مادھو کا اندیشہ تھا کہ وہ کوٹھڑی میں گیا تو  گھیسو آلوؤں کا بڑا حصہ صاف کر دے گا “۔

ہندوستانی نقاد  ڈاکٹر نگہت  ریحانہ نے اردو کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔

          ” پہلے تو وہ اپنی غریبی کو نوشتہ تقدیر ر سمجھ کر چپکے بیٹھے رہتے تھے لیکن اب انہیں اپنی مفلسی اور اونچے طبقے کی امارت کا راز معلوم ہو گیا تھا۔ اب وہ ایسے لوگوں کے آگے دست سوال دراز کرنا نہیں چاہتے تھے ۔ جب ان کی زبوں حالی کے ذمہ دار تھے مجھے بہتر ہوتا اگر اس طبقہ کے خلاف ان کے دلوں میں نفرت کا جذبہ اتنا شدید  ہوتا کہ وہ ان کے خلاف بغاوت کرکے میدان عمل میں اتر آتے۔ تب شاید سماج کی برائیوں کو دور کرنے کا یہ اقدام ان کے  کردارکو مکمل بنا دیتا لیکن ایسا نہیں ہوتا وہ محض سماج کے ناکارہ اور غیر سماجی عناصر کے روپ میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔“

 

           گھیسو اور مادھو بھیک مانگنے کو برا نہیں سمجھتے وہ اس پر نادم نہیں وہ بھیک مانگنے کو برا نہیں سمجھتے اور بھیک مانگنے جاتے ہیں ۔ اور اداکاری کے لیے آنکھوں میں آنسو بھر کے بھیک مانگتے ہیں۔ انہیں زمینداروں اور بنیوں سے بھیک مانگنے میں کوئی ہار نہیں۔

 

·     غربت :

           باپ بیٹے کی انسانی رشتے کی محبت اور قربانی دینے کا جذبے کی جگہ بھوک اور غربت و پسماندگی کی پیدا کردہ خودغرضی نے لے لی ہے ۔ ان پر ایک ایسی بے حسی  طاری ہو چکی ہے جو خود غرضی،غربت، ناامیدی اور بے چارگی کی پیدا کردہ ہے ۔ وہ سوچتے ہیں کہ رائج استحصالی نظام میں محنت کا صلہ نہیں ملتا ۔ کے محنت کرنے والے کی حالت ان سے بہتر نہیں تو پھر میں نے تم شوکت کی طرح کیوں اضافی طور پر بھگتی جائے؟ پریم چند نے لکھا ہے ۔ ”اسے یہ تسکین تو تھی ہی کہ اگر وہ خستہ حال ہے تو کم از کم اسے کسانوں کی سی جگر توڑ محنت تو نہیں کرنی پڑرہی اور اس کی سادگی اور بے زبانی سے دوسرے بےجا فائدہ تو نہیں اٹھاتے ۔ “ان میں قدیم معاشرتی اور روایتی مردانہ غیرت بھی مر چکی  ہے ۔ انہیں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ عورت کی کمائی سے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں ۔

 

          گھیسو سمجھتا ہےکی وفاداری اور رفاقت حیات کا حق ادا کرنے کا موثر طریقہ یہ ہے کہ پائنتی پکڑ کر بیٹھا رہا جائے ۔ وہ مادھو سی کہتا ہے کہ”میری عورت جب مری تھی تو میں تین دن تک اس کے پاس سے ہلا بھی نہیں ۔“

 

             گھیسو عجیب عجیب توجیہا رکھتا ہے ۔ اس کی غربت صرف اس کی نہیں ۔ اس جیسے لاکھوں کروڑوں انسانوں کی المناک زندگی کا یہ کیسا عبرتناک اور لرزا خیز المیہ ہے کہ زندگی میں ایک بار  خیرات کے طور پر ٹھاکر کی شادی کے موقع پر پیٹ بھر کر اچھا کھانا کھانے کے واحدعیاشی وہ بھلائے نہیں بھول پاتا وہ یاد شائداس کی زندگی کے واحد راحت خوشی اور آسودگی کی یاد ہے اس بارے میں بھی گھیسو کہتا ہے ۔ ظ

 

           اب ہمیں کوئی ایسا بھوج کھلاتا؟اب کوئی کیا کھلائے گا وہ جمانا دوسرا تھا ۔ اب تو سب کو کھپایت کی سوجھتی ہے ۔ سادی بیاہ میں مت کھرچ کرو،کریاکرم میں مت کھرچ کرو،پوچھو گریبوں کا مال بٹور کر کر کہاں رکھو گے؟مگر بٹورنے میں تو کمی نہیں ہے، ہاں کھرچ میں نے کپھائت کی سوجھتی ہے۔“

          مادھو پوچھتا ہے تم نے” ایک بیس پوڑیاں کھائیں ہوں گی۔ بیس سے جیادہ کھائی تھیں “۔ ”میں پچاس کھا جاتا“. یہ کیسی الم ناک حسرت ہے۔  پریم چند نے لکھا ہے ۔ ”اس دعوت میں اسے جو سیری نصیب ہوئی تھی وہ اس کی زندگی میں ایک یادگار واقعہ تھی اور آج بھی اس کی یاد تازہ تھی. گھیسو کہتا ہے۔ وہ بھوج نہیں بھولتا ۔ وہ نہایت حسرت اور لطف سے اس کا نقشہ کھینچتا چلا جاتا ہے۔

 

·    طنز :

         طنز کا عنصر بھی اس افسانے میں نمایا اور حاوی نظر آتا ہے ۔ یہ طنز بھی   بیانات میں ہے اور کہیں مکالمہ اپنے طنز کا روخ کبھی صاحب کاروں اور دولت مند لوگوں کی طرف ہوتا ہے اور کبھی اس کا اشارہ ہمارے معاشرے کی طرف ہے ۔ جس میں طبقات کی تقسیم ذات پات اور معاشی بنیادوں پر کی گئی ہے ۔ پریم چند نے اس افسانے میں بڑے فنکارانہ انداز میں معاشرے کے رسم و قبود پر طنز  کیا ہے ۔ جس غریب کو ساری عمرتن ڈھانپنے  کے لئے کپڑا میسر نہ آتا ہو،اس  اس کے لئے نیک فن کی ضرورت نہیں ۔ جو مردے کے ساتھ جل جاتا ہے۔  کفن کی قیمت ادا کرنے کے لئے تو پیسے مل جاتے ہیں ۔ لیکن علاج اور دوا کے لئے نہیں، اسی طرح پورے افسانے میں طنز کی لہر جگہ جگہ موجود ہے۔

No comments:

Post a Comment

عمران خان نے اپنے حکوت میں کیا کیا کام کیے

  عمران _ خان   نےساڑھے _ تین _ سالوں _ میں _ کیا _ کیا .. ؟ 1 ⃣ - ہالینڈ کی حکومت سے   گستاخانہ خاکوں کی نماٸش کو رکوایا . 2 ...