درویش
کا کردار:
جہاں تک باغ و
بہار کے درویشوں کے کرداروں پر ناقدانہ تبصرے کا تعلق ہے ۔ تو اس کے پہلے درویشوں
کا کردار نکما اور بودا ہے ۔ پہلا
درویش یمن کے ملک التجا کا اکلوتا بیٹا
تھا۔ جو بےجا لاڈ پیار کی وجہ سے بڑا اتنا آسان ہو چکا تھا دولت کی فراوانی تھی
اور ناز و نعیم اور آسودگی کی تعلیم و تربیت کی وجہ سے اس میں خود اعتمادی پیدا نہ
ہوسکی۔ اس کا باپ ہمارا تو سہارا تو سارا سرمایہ اس کے ہاتھ لگا مگر اپنے لچے
لفنگے یاروں کی مصاحبت سے اس نہ وہ تمام مال و دولت چند دنوں میں اڑا ڈالیں اور
کنگال ہو گیا۔ اس افسانے میں موجود کیا کردار سب سے برا کردار کہلاتا لاتا ہے ۔
کیونکہ اس نے اپنے تمام کام خود پر چھوڑ دیا اور خود ہمیشہ موج مستی میں مصروف رہا
۔ اور ہمیشہ اپنے باپ کے پیسوں پر زندگی
گزاری اور ساتھ اپنے نکمے دوستوں پر بھی پیسے اڑاتا رہا۔
” کئی برس کے عرصے میں یک بارگی یہ حالت ہوئی کہ ٹوپی اور لنگوٹی باقی رہی
۔ دوست آشنا جو دانت کاٹی روٹی کھاتے تھے
اور چمچا بارہ اپنا ہر بات میں زبان سے نثار کرتے تھے کفور ہو گئے ۔ سوائے
غم اور افسوس کے کوئی رفیق نہ ٹھہرا ۔ "
جب
کوئی سہارا آسرا نہ رہا تو اسے اپنی سگی بہن یاد آئی عید کے دنوں میں جسے کبھی یاد بھی نہیں کیا ڈھیٹ ہو کر اس کے در پر آ گیا اس کی بہن بڑی
حوصلہ مند اور دور اندیش خاتون تھیں اس نے نہ صرف محبت و شفقت سے اس کی حوصلہ
افزائی کی بلکہ اس کی بددلی کو ہمت دری
میں تبدیل کرتے ہوئے اسے سرمایہ دے کر
تجارت کی غرض سے قافلے کے ہمراہ روانہ کیا درویش نے مال تجارت اہل کے سپرد کر دیا
اور خود دمشق روانہ ہو گیا تاکہ وہ قافلے سے پہلے وہاں پہنچ جائے ۔ بہن کے مقابلے
میں بھائ کا کردار بڑا نکما اور نہایت برا ہے جسے خود بھی اعتماد نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کوئ اقدام
کرنے کی ہی صلاحیت ہے تو وہ ایک حسینہ کی
زلف گرہ گیر کا اسیر ہو کر اپنے فرائض سے غافل ہوجاتا ہے۔ نہ تو اسے اپنے ماضی یاد رہتا ہے اور نہ ہی بہن
کی آرزو ۔ وہ پھر اپنا سب کچھ لٹا کر پہلے سے بھی بدتر صورتحال کا شکار ہو جاتا ہے
اور اس عورت کے اشاروں پر ناچنے لگتا ہے لیکن وہاں عیارحسینہ اسے اپنا کوئی بھی
نہیں بتاتی بہت دائیں بائیں بڑی دوڑ دھوپ کرتا ہے اور سیدی بہار سے لے کر
یوسف سوداگر تک چکر کاٹنا پڑتا ہے جس سے
ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو اس کا اپنا دماغ تھا اور نہ ہی کوئی ضمیر نہ ارادہ نہ مقصد
نہ راستہ نہ کوئی منزل وہ چلا ہی جاتا ہے مگر اس کی دماغ میں کوئی ایک سوال
بھی پیدا نہیں ہوتا اور اگر کوئی سوال
ابھرتا ہے تو اس کا جواب تلاش کرنے کی بالکل کوشش نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی سرگرمی
دکھاتا ہے یہاں تک کہ یوسف سوداگر کی میزبانی کرتے ہوئے خود بھی نشے میں دھت
ہوجاتا ہے اور اسے دنیا و مافیا کی کوئی خبر نہیں رہتی اور جب آنکھ کھلتی ہے تو
اور ہی نقشہ سامنے آتا ہے۔
”
جب صبح ہوئی اور آفتاب دو نیزے بلند ہوا ، تب
میری آنکھ کھلی تو دیکھا میں نے ، نہ وہ تیاری ہے نہ وہ مجلس، نہ وہ پری، فقط خالی
پڑی ہے مگر ایک کونے میں کمبل میں لپٹا ہوا دھرا ہے ۔ جو اس کو کھول کر دیکھا وہ
جوان اور اس کی رنڈی دونوں سر کٹے پڑے ہیں ۔ یہ حالت دیکھتے ہی آواز جاتے
رہے۔ عقل کچھ کام نہیں کرتی کہ یہ کیا
تھا اور کیا ہو گیا " ۔
جب کچھ
ہوش نے کام کیا تو اس شو کی تلاش شروع
ہوئی ۔ جب اس کا سراغ ملا تو اس حسینہ نے فقط اتنا ہی کہا کہ توڑے اشرفی لے کر وطن لوٹ جائے۔ اور درویش کا سارا
عشق ٹنڈہ پڑ گیا اور اس کی یہ حالت ہوئی کہ وہ یہ بات سنتے ہی کاٹھ کا ہوگیا اور
ایسا سوکھ کیا کہ اگر کوئی میرے بدن کو کاٹے تو ایک بوند لہو کی نہ نکلے اور تمام
دنیا آنکھوں کے آگے اندھیری لگنے لگی اور ایک آہ نامرادی کی بے اختیار جگر سے نکلی
اور آنکھوں سے آنسو بھی ٹپکنے لگے ۔ پھر وہ بڑی بیچارگی سے اپنی جان ساری اور اپنی
خدمت گزاری کا واسطہ دے کر اپنے دل کی بات اپنے لبوں پر لاتا ہے ، تو وہاں
عیارحسینہ طنزیہ انداز میں کہتی ہے کہ چہ خوش آپ ہمارے عاشق ہیں ۔ مینڈکی کو بھی
زکام ہوا، اے بے وقوف اپنے حوصلہ سے زیادہ باتیں بنانا خیال خام ہے، چھوٹا منہ بڑی
بات بس جو پڑھا کے یانک میں بات چیت مت کر ۔
اس نے یہ تمام باتیں اس طرح ہنستے ہوئے ہیں ، کیونکہ وہ بھی اسے نکما سمجھتی
اور زیادہ اہمیت نہ دیتی ۔ کیونکہ اس نے کبھی اپنی زندگی اور ترقی کے بارے میں
نہیں سوچا اور اگر سوچا بھی تو اس پر عمل نہیں کیا۔ جس سے یہ ایک نکما اور برا
کردار نظر آتا ہے ۔
کیونکہ
اس حسینہ کے جواب سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ درویش کے کردار میں مردانگی کی موجود ہی
نہیں دلکشی و فعالیت اور اور ہمدردی بھی ناپید ہے۔ غرض یہ ایک مجہول اور بودا کا
کردار ہے۔ جس میں دوسروں کو متاثر کرنے کی بالکل اہلیت نہیں ہے اور یہ ایسا غیر
موثر اور برائے نام کردار ہے کہ جو تقدیر کے نام پر دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا بنا
ہوا ہے۔ جو خود کچھ کام نہیں کرتا اور تقدیر پر سب کام چھوڑ کر خود ہاتھ دھرے
بیٹھا ہے ۔ بالآخر درویش کی اس خوبصورت عورت سے شادی ہوجاتی ہے اور یہ واقعہ بھی
کسی حادثے سے کم نہیں ہوتا اور بایں ہمہ بھی اس میں حوصلے و امت کی دور دور تک
آثار نظر نہیں آتے۔ گویا کامیابیاں حاصل کر لینے کے بعد بھی وہ کامیابی سے محروم
رہا۔ جو درویش کی کوتاہ فہمی اور نکمے پن کی بین دلیل ہے ۔ وہ دریا پار کرنے کی
سوچنے لگا تو پری کو حیران جنگل میں تنہا پیڑ کے نیچے بیٹھا گیا ۔ اور یہیں سے ہی
اس کی بدنصیبی کا آغاز ہوا ۔
غرض درویش کی
تمام کہانی میں ہر جگہ ہر مقام پر اس کی قسمت نے اس کا ساتھ دیا اور قدرت اس پر
مہربان رہی لیکن اس نے ہر بار اور ہر مقام پر اپنی کم فہمی ، کم ہمتی ، بے عملی کے
ہاتھوں سب کچھ ضائع کردیا۔ ورثے میں دولت ملی تو عیش و عشرت میں اور نکمے دوستوں
کے ساتھ مل کر ضائع کردی۔ مہربان اور شفیق بہن ملی اور اس نے اس کا ہاتھ تھاما اور
اسے روپیہ دے کر قافلے کے ہمراہ روانہ کیا تو اس نے سب کچھ بھول بھلا کر ایک
خوبصورت حسینہ کے عشق میں اس کی غلامی اپنا لیں اور بہن تک کا خیال نہ آیا۔ جس سے
یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہر جگہ اپنی کمزور کردار کی وجہ سے مصائب ہیں میں مبتلا رہا
اور کسی مقام پر بھی کوئی موثر اقدام نہ کر سکا۔
درویش
کی بہن کا کردار:
پہلے
درویش کی بہن کا کردار بھی ایک قابل ذکر
کردار ہے اور میر امن نے اس کردار کیکچھ ایسے الفاظ میں نقش گری کی ہے کہ انہیں بے
ساختہ داد دینے کو جی چاہنے لگتا ہے پہلا درویش اس کا حال کچھ اس طرح بیان کرتا ہے
کہ :
”
وہ ماں جائ میرا یہ حال دیکھ کر بلائیں لے گلے مل
کر بہت روئی تل ماش اور کالے ٹکے مجھ پر سے صدقے کیے اور کہنے لگی ،اگرچہ ملاقات
سے دل بہت خوش ہوا لیکن بھیا تیری یہ کیا
صورت بنی ؟ کئی مہینے اس کے ہاں آرام سے رہا پھر وہ ایک دن نہایت شفقت سے بولی ۔”
اےبیرن تم میری آنکھوں کی پتلی اور ماں باپ کی موئ مٹی کی نشانی ہے ۔ تیرے آنے سے میرا کلیجہ ٹھنڈا ہوا جب تجھے
دیکھتی ہوں باغ باغ ہو جاتی ہوں ۔ تو نے
مجھے نہال کیا لیکن مردوں کو خدا نے کمانے کے لئے بنایا ہے گھر میں بیٹھے رہنا ان
کو لازم نہیں ۔ جو مرد نکھٹو ہو کر گھر
سیتا ہے ۔ اس کو دنیا کے لوگ طعنہ مہنا
دیتے ہیں ۔ خصوصا اس شہر کے آدمی چھوٹے بڑے بے سبب تمہارے رہنے پر کہیں
کہ اپنے باپ کی دولت دنیا کھو کھا کر
بہنوئی کے ٹکڑوں پر پڑا یہ نہایت بے غیرتی
اور میری تمہاری ہنسائی اور ماں باپ کے نام کو سبب لاج لگنے کا ہے تو میں نے اپنے چمڑے کی جوتیاں بنا کر تجھے بناؤ اور کلیجے میں ڈال کر رکھو۔"
اس اقتباس کو
پڑھتے ہوئے جس دن کا تصور ہمارے ذہن میں اجاگر ہوتا ہے وہ سر سے پاؤں تک ایک
ہندوستانی بینک کا تصور ہے جیسے کالی داس کی شکنتلا کو ہر ہندوستانی ہندو اپنی
بیٹی سمجھتا ہے اس طرح برصغیر کا ہر مسلمان اسے اپنی بہن گردانتا ہے ۔ ایک ایسی بین
چین کی جسے اپنے بھائی سے از حد درجہ محبت ہے ہے جو اپنی بدحالی پر رنجیدہ اور
خوشحالی کی آس لگائے ہوئے ہیں اور جو ایک ہی وقت میں اپنے بھائی خاوند اور مرے
ہوئے ماں باپ کی لاج رکھنے کی خواہاں ہے۔
·
نتیجہ
:
میر امن کے افسانے باغ و بہار کے درویش اور درویش کی بہن کے کردار کے
مطالعہ کے بعد ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس افسانے میں میں درویش کا کردار نکمہ
اور بہت برا ہے اور اس کی بہن کا کردار اچھائی پر ہے ۔ ان دونوں کرداروں کو دیکھتے
ہوئے ہمیں اپنی اور اپنے معاشرے کی اصلاح کرنی چاہیے۔
No comments:
Post a Comment