Sunday, March 13, 2022

ڈپٹی نذیر احمد کے ناول توبتہ النصوح کے کردار

 

 توبتہ النصوح کے کردار :

تعارف :

              مولوی نذیر احمد کا تیسرا ناول ہے جو 1877ء میں شائع ہوا۔ یہ اولاد کی تربیت کے بارے میں ہے۔ اس ناول کے ذریعے یہ حقیقت روشن کی گئی ہے کہ اولاد کی محض تعلیم ہی کافی  نہیں ہے۔ اس کی پرورش  اس طرح ہونی چاہیے کہ اس میں نیکی اور دینداری کے جذبات پیدا ہو ں۔ نصوح نےاپنی اولاد کی تربیت ٹھیک طرح سے نہیں کی تھی ۔ شہر میں ہیضہ پھیلا۔ نصوح خود بھی بیمار ہوا ۔ اسی دوران اس نے خواب دیکھا کے عشر کا میدان برپا ہے ۔ ہر ایک کے اعمال کا حساب ہو رہا ہے۔ اس موقع پر نسواں کی جھولی خالی ہے ۔ بیدار ہوا تو وہ اپنے خاندان کی اصلاح پر کمر بستہ ہو گیا۔

 

کردار :

            یہ افسانہ کردار نگاری کے لحاظ سے ایک خوبصورت افسانہ ہے۔ جس میں مولوی نذیر احمد نے ہمارے معاشرے کی اصلاح کی بھرپور کوشش کی ہے ۔  اس افسانے میں پہلے  کرداروں میں نصوح کی اولاد سب لوگ دین سے دور ہو کر برائی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ اور سب لوگ مسائل میں گر جاتے ہیں ۔ جب نصوح بیمار ہوجاتا ہے اور خواب دیکھتا ہے اس کے بعد وہ اپنی اولاد کی اصلاح کرنے میں لگ جاتا ہے۔ 

 

     مولوی نذیر احمد کا ناول  ” توبتہ النصوح  12 فیصد پر مشتمل ہے ۔  اس ناول کے کردار یہ ہیں :

             اس ناول کے کرداروں میں نصوح جو گھر کے مردوں میں سب سے بڑا کردار ہے ۔ شیر نے یہ ڈی بی بی امیر اور امیر زادوں کی طرح تھے اور دین سے بیگانے تھے ۔ اور گھر میں موجود باقی سب کا بھی یہی حال تھا۔ لیکن جب ہیضہ کی بیماری پورے علاقے میں پھیل گئی تو نصوح نھی اس سے بچ نہ سکا ۔ اور اس حادثے کے بعد نصوح کو ہدایت ملی ۔ خواب سے واپس آنے کے بعد نصوح گھر میں موجود سب کی اصلاح شروع کر دیتا ہے ہے ۔

              مولوی نذیر احمد کے ناول توبتہ النصوح میں نصوح کی بیوی کا کردار بھی معاشرتی اصلاح کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے ۔  نصوح نے سب سے پہلے اپنی بیوی کی اصلاح کی ۔ جس کا نام فہمیدہ ہے ۔

            توبتہ النصوح میں نرسوں کے بیٹے کا کردار یار جس کا نام کلیم ہے۔ جو شاعر ہوتا ہے لیکن بات کی بات نہ ماننے کی وجہ سے گھر سے بھاگ جاتا ہے۔ جو زخمی حالت میں گھر واپس آتا ہے ہے اور انتقال کر جاتا ہے۔ اس ناول میں یہ کردار بہت سبق آزمائش کردار ہے۔

           اس ناول کے کرداروں میں نصوح کی اولاد موجود ہے ، جن تمام کی وہ اصلاح کرتا ہے ۔ جس میں اس کا منجھلا بیٹا علیم جو چھٹی جماعت کا طالب علم ہوتا ہے ۔ سلیم جو نصوح کا چھوٹا بیٹا ہوتا ہے۔ جس کی عمر دس سال کی ہوتی ہے اور وہ مدرسہ میں پڑھتا ہے۔

          مولوی نذیر احمد کے ناول توبتہ النصوح  میں نصوح بیٹیوں کے کردار میں نعیمہ نصوح کی بڑی بیٹی کی کی جس کی شادی کو دو سال سال ہو گئے تھے ۔ اور اس کا ایک پانچ مہینے کا بیٹا بھی تھا۔ جو اپنے سو سال میں لڑ کر اپنے ماں باپ کے گھر گھر پر ہی رہی تھی۔ یہ کردار بھی ہمارے معاشرے میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔

           حمیدہ نصوح کی چھوٹی بیٹی کی جس کی عمر چھ سال تھی یہ بھی اس کے کرداروں میں شامل ہے۔ صالحہ جو اس ناول کے کرداروں میں ایماں کی خالہ ہے ۔

            مرزا ظاہر دار بیگ جو اس ناول میں کلیم کے دوست کا کردار ہے۔ یہ حاضر دماغ ، زبان میں جادو اور حاضر دماغ مسلم ہے ۔  فطرت جو اس ناول میں نصوح کے چچا زاد بھائی کا کردار ہے۔ 

          حضرت بی یہ اس ناول کے کرداروں میں میں نے ایک بوڑھی عورت ہے ۔ جسے لوگ حضرت بی کہتے ہیں ۔ اور اس کے چار نواسے ہیں ۔ ان میں ایک سلیم کا ہم جماعت ہے۔

 

         ان تمام کرداروں کے ذریعے مولوی نذیر احمد نے ہمارے معاشرے کاکا ایسا نقشہ کھینچا ہے  جو بالکل حقیقت نظر آتا ہے ۔ جس سے مولوی نذیر احمد معاشرے کی اصلاح کرتے ہیں۔

         اس ناول میں نصوح اپنی اولاد کو مسائل سے نکالنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے ۔ اور ان کو تمام مسائل اور برائیوں سے نکال کر اچھی زندگی کی طرف لانا چاہتا ہے ۔ چھوٹے بچوں کے کرداروں میں بچے اس کی بات مان لیتے ہیں ہیں ۔ لیکن اس کے بڑی اولاد کے کردار اس کی بات ماننے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ اس کا بڑا بیٹا جنگ کے دوران زخمی حالت میں واپس آجاتا ہے ۔ جو گھر سے بھاگ کر گیا ہوتا ہے ۔ اور واپس آ کر فوت ہو جاتا ہے ۔

 

         مولوی نذیر احمد اپنے اس ناول کے کرداروں کے ذریعے برے اخلاق سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اور اس ناول کے کرداروں کے ذریعے بچوں کو اچھی بات کی تلقین گئی ہے ۔ اور ان کرداروں کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ کس طرح گھریلو حالات کو سنبھالا جائے اور مسائل کا حل نکالا جائے آئے ۔ مولوی نذیر احمد کے اس ناول کے کردار ہمارے معاشرے کو برائیوں سے بچا کر راہ راست پر لانے کی تلقین کرتے ہیں۔

 

نتیجہ :

        مولوی نذیر احمد کے ناول ”توبتہ النصوح “ کے مطالعہ کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مولوی نذیر احمد نے اس ناول کے ذریعے ہمارے معاشرے کا ایک نقشہ کھینچا ہے ۔ اور جس کے ذریعہ مولوی نذیر احمد اس معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں ۔ اور ہمیں بتاتے ہیں  کہ گھریلو حالات ، اور مسائل کو کس طرح ٹھیک کیا جائے۔ اور اپنی اولاد کی کس طرح اصلاح کی جائے۔

پریم چند کے افسانے کفن کا فنی جائزہ

 

 پریم چند کے افسانے کفن کا فنی جائزہ۔

 

پریم چند کا یہ افسانہ  ”کفن “ اردو افسانے کے ارتقاء میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس افسانے نے کفن جائزہ ملاحظہ کیجئے :

 

·     کردار نگاری :

            یہ افسانہ کردار نگاری کے لحاظ سے ایک خوبصورت افسانہ ہے جسے پریم چند کا شاہکار افسانہ کہا جا سکتا ہے ۔ یہ دونوں کیریکٹر طبقاتی المیہ کو اچھی طرح نمایاں کرتے ہیں۔ نفسیاتی زندگی پر حالات کے اثرات کتنے گہرے ہیں ۔ شراب پی کر مادھو بدھیا کے لیے روتا ہے ۔ لیکن پھر دونوں باپ بیٹا ناچنے اور گانے لگتے ہیں۔  انسان کی نفسیات میں کتنی تبدیلی ہو سکتی ہے ۔  اپنے جذبات کی آسودگی کے لئے فرد کو اپنا رہبر بنانا بھی پسند نہیں۔ آج ہر انسان کتنے تنہائی چاہتا ہے۔ اور اس تنہائی میں اپنے جذبات کو کس قدر آسودا کرنا چاہتا ہے ۔ اپنی آرزو کی تکمیل کی جاتی ہے ۔ انسان حالات سے شکست کھا کر کتنا چھوٹا اور کتنا کمزور نظر آتا ہے ۔ پریم چند نے بدھیا کی لاش اور کفن کا ذکر ہے ۔ لیکن یہ دراصل مادھو اور گھسو کی لاشوں کا ذکر ہے ۔ ان کے کفن کا سوال پیش نظر ہے ، یہ دونوں کردار پنی طبقاتی  زندگی کی پرچھائیوں کو نمایاں کر رہے ہیں۔

 

             موضوع کے اعتبارسے اس افسانے کی کہانی میں ایک مقامی دیہاتی مسئلہ پیش کیا گیا ہے۔  کفن کا کردار مثالی کردار ہے۔ ان میں ارتقاء کی صورت نظر نہیں آتی۔ ان کی آنکھوں کے سامنے  ترحم انگیز واقعات رونما ہوتے ہیں مگر ان کا ضمیر نہیں جاگتا ۔ ان کا یہ رویہ غیر فطری سا ہے ۔ صلہ رحمی کا تقاضہ بھی ان کے دل میں درد پیدا نہیں کرتا۔ البتہ مادھو کے اندر کبھی کبھی کوئی چنگاری بھڑک اٹھتی ہے۔ اس طرح اس کے کردار میں تبدیلی اور ارتقاء کی جھلک نظر آتی ہے جو لمحاتی  ہے۔

                   

        بدھیا خوشخصال اور اوصاف حمیدہ کی مالک ہے۔ جب بیاہ  کر ان کے گھر آئی تو گھر کا حال بدل گیا ۔ محنت مزدوری کرکے خود بھی کھاتی اور نکمےسسر اور خاوند کا بھی پیٹ بھرتی۔  کی مگر شوہر اورخسر کا برتاؤ ان کے ساتھ نہ صرف سفاکانہ اور غیر انسانی ہے بلکہ آلو کھا کر اور پانی پی کر الاؤ کے سامنے چادر اور کر سو جانا ،سے بے ضمیری تو پیدا ہوجاتی ہےمگر آلوکھا کر وہیں سو جانے کی کوئی منطقی وجہ پلاٹ کی تنظیم کے بارے میں سامنے نہیں آتی ۔ یہ پلاٹ کی کمزوری ہے ۔  

 

          افسانہ” کفن “کے مطالعہ کے دوران ہمارا واسطہ ایسے کرداروں کے ساتھ پڑتا ہے جو اپنی ذلیل ترین ارکات و سکنات کے باوجود اپنے ہر عمل کا جواز باآسانی پیش کرسکتے ہیں اور افسانے” کفن“ کے ذریعے جو  بات مصنف ہم تک  پہنچانا چاہتا ہے وہ بھی ہم تک پہنچانے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔

          مگر بقول مشرف احمد : ”جو چیز اس کہانی کو ایک بڑی کہانی بناتے ہیں وہ نہ صرف معاشرے کی تصویر کشی ہے اور غیر انسانی سطح پر زندگی گزارنے والے چند کردار ہیں بلکہ کہانی کی وہ اکائی ہے جس میں یہ سب عناصر اس طرح حل ہوگئے ہیں کہ ان میں سے  کسی عنصر کو الگ کرکے کہانی کو ایک عضویاتی کل کی شکل میں دیکھا ہی نہیں جا سکتا “۔

 

·     تجسس :

            اس افسانے میں تجسس بھی پایا جاتا ہے۔ افسانہ” کفن“ میں تجسس و جستجو کے عناصر بھرپور انداز میں پائے جاتے ہیں ۔ ”کفن “کی سرخی بذات خود ایک طوفان تجسس ہے ۔ پڑھنے والا سوچتا ہے کہ کفن کس کا ہوگا؟ تھوڑی دور جانے کے بعد جب بدقھیا کی فریادیں اور دل خراش صدائیں سننے میں آتی ہیں تو اس مقام پر ہمارے تجسس کو ایک نیا موڑ مل جاتا ہے کہ گھیسو اور مادھور اس کے دوا دارو کریں گے یا نہیں۔ ہم انہی سوالات و خدشات کے سمندر میں غوطے کھاتے رہے ہوتے ہیں کہ بات بدھیا کے رحم و کرم تک آن پہنچتا ہے ۔ چندا اکٹھا کرنے کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے اور پڑھنے والا سوچنے لگتا ہے کہ کوئی پیسے دے گا بھی یا نہیں ۔ پیسے ملنے کے بعد جب مادھو اور گھیسو چٹ پٹی کلیجیاں ، پوریاں ، شراب اور کچوریاں کے جام سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس سے پڑھنے والا تجسس و جستجو کی حیرت میں پڑ جاتا ہے۔ افسانے میں اس طرح کی غیر متوقع حالات و واقعات نے تجسس جستجو میں بے پناہ اضافہ کیا ہے جو افسانے کی دلکشی اور دلچسپی کا باعث بنا ہوا ہے۔

 

·     زبان وبیان:

                افسانہ ”کفن “کا زبان و بیان ہے کہ کہ ایسا کسی اور افسانے میں نہیں پایا جاتا ۔ جہاں تک مکالمے اور زبان و بیان کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں پریم چند کو بہت مہارت حاصل رہی ۔ ان کے افسانوں میں بے شک زبان و بیان کی سادگی پائی جاتی ہے لیکن اس سادگی میں بے تکلفی اور برجستگی کی کیفیت قاری کے دل و دماغ کو ایک طرح کی آسودگی بخشتی ہے ۔ اس سے بھی تاثر میں اضافہ ہوتا ہے۔  مکالمے ،کرداروں کے مقام اور مرتبے کے عین مطابق ہیں۔ دیہاتی زبان اور جاہلانہ مکالموں میں بھی پریم چند اپنی مہارت کا ثبوت  بہت اچھی طرح پیش کرتے ہیں۔ وہ کرداروں کی ذہنی سطح، موقع و محل اور ماحول کے تقاضوں کے پیش نظر زبان و بیان اور مکالموں کی ساخت رکھتے ہیں۔  ” کفن “ کے کرداروں کی گفتگو پریم چند کے مال فن کی آئینہ داری کرتی ہے۔ گھیسو کبھی کبھی معاشرتی قدروں اور رسم و رواج پر کوئی فقرہ مارتا بھی ہے ، جو دراصل پریم چند کا اپنا طنزیہ ہوتا ہے تو اس کے طرز ادائیگی  میں گھیسو کی فکری کم مائیگی اور ذہنی پستی صاف جھلکتی ہے۔ ایسے مواقع پر پریم چند کردار کے پیچھے بالکل چھپ جاتا ہے اور یہ امر اس کی فنی چابکدستی کی دلیل ہے ۔

 

·     مکالمہ نگاری:

                 افسانہ” کفن“ میں پریم چند نے مکالمہ نگاری کی بہت بڑی مہارت پیش کی ہے ۔ اس افسانے میں بھی مکالمے موقع و محل کے مطابق ادا کیے گیے ہیں۔ مختصر سوال و جواب نے افسانے کے مکالموں میں شستگی و برجستگی کے عناصر پیدا کر دیے ہیں۔ یہاں پریم چند نے کرداروں کے حسبِ حال مکالمہ نگاری کی ہے انہوں نے کرداروں کی ذہنی سطح اور سادہ لوحی کا خاص خیال رکھا ہے۔ گھیسو اور مادھو کی باہمی گفتگو سے واقعی یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی دیہات کے  دو ان پڑھ اور سادہ لوح انسان سوال و جواب کر رہے ہو۔ افسانہ نگار کا کمال یہ ہے کہ اس کے ان دونوں کرداروں کی گفتگو سے معاشی حالت کی بھی عکاسی اور ترجمانی ہوتی ہے۔

 

·     پلاٹ :

             اس افسانہ” کفن “میں اس کا پلاٹ بھی بہت اچھی طرح اور تمام اصولوں کے مطابق ہے ۔ اس میں موجود تمام حالات و واقعات ایک خاص تسلسل کے ساتھ رونما ہوتے ہیں ۔ افسانہ نگار نے کہانی کے اوقات کو زنجیر کی کڑیوں کی طرح باہم منسلک کر دیا ہے۔ اس لیے افسانے کے پلاٹ میں کسی قسم کا کوئی خلا نہیں ہے اور نہ ہی پلاٹ میں کسی قسم کا تضاد پایا جاتا ہے ۔ یہ پلاٹ کسی بھی قسم کی پیچیدگی اور الجھاؤ کا شکار نہیں ۔ حالات و واقعات کو سمجھنے میں پڑھنے والے کو زیادہ دماغ نہیں لگانا پڑتا ۔ پریم چند نے اس افسانے کا پلاٹ نہایت مہارت اور فن کاری سے ترتیب دے کر اپنی استادانہ صلاحیتوں کا ثبوت دیا ہے ۔

 

·     منظر نگاری:

             افسانہ ”کفن“ میں پریم چند نے منظر نگاری بھی بڑی مہارت سے کی ہے ۔ اس افسانےمیں افسانہ نگارنے منظر کشی کا ایک اعلی پائے کے افسانہ نگار ہونے پر مہرثبت  کر دی۔ منظر کشی کی یہ محاکات آج کی  مثال اس مقام سے دی جاسکتی ہے جب دونوں باپ بیٹا گھیسوں اور مادھوگرم گرم آلو جلدی جلدی کھاتے ہیں۔ پریم چند نے اس موقع پر نہایت باریک بین مصور کی طرح مورقع  نگاری سے کام لیا ہے ۔لفظی تصویر کشی کے حوالے سے گرم آلوکھاتے ہوئے آنکھوں سے آنسوؤں کا نکل آنا ناقابل فراموش منظر نگاری ہے۔

 

Thursday, March 10, 2022

تری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

سمندر میں اترتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

تری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

 

تمہارا نام لکھنے کی اجازت چھن گئی جب سے

کوئی بھی چہرہ پڑھتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

 

ارادہ روز کرتا ہوں کہ اُن سے حالِ دل کہہ دوں

مگر وہ روبرو آئیں  تو کانپیں ٹانگ  جاتی  ہیں 

 

ناجانے ہو گیا ہوں اس قدر حساس میں کب سے

کسی سے بات کرتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں۔

 

تری یادوں کی خوشبو کھڑکیوں میں رقص کرتی ہے

تیرے غم میں سلگتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں۔

 

میں سارا دن بہت مصروف رہتا ہوں مگر جونہی،

قدم چوکھٹ پہ رکھتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں ۔

 

ہر اک مفلس کے ماتھے پر الم کی داستانیں ہیں

کوئی چہرہ بھی پڑھتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں۔

 

بڑے لوگوں کے اونچے، بدنما اور سرد محلوں کو

غریب آنکھوں سے تکتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں۔۔

 

میں ہنس کے جھیل لیتا ہوں جدائی کی سبھی رسمیں

گلے جب اسکے لگتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں۔

 

ہزاروں موسموں کی حکمرانی ہے میرے دل پر

وصی میں جب بھی ہنستا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

پریم چند کے افسانے کفن کا فکری جائزہ

 

Ø پریم چند کے افسانے کفن کا فکری جائزہ۔

افسانہ کفن میں پریم چند نے جن معاشرتی ناسور پر اپنے فن کا نشتر چبھویا اس میں سارے فاسد مادے اور کریہہ مواد کو بہہ جانے پر مجبور کردیا ہے ۔  غربت و  افلاس اور پست ہمتی کے ہاتھوں معاشرتی تقدیس کے ردا جس بری طرح سے تار تار ہو گئی ہے ۔ اس کی جھلک اس افسانے میں ملتی ہے ۔   افسانہ نگار نے اسی معاشرتی کجی اور سماجی بد ہیئتی کی طرف توجہ دلائی ہے .

            پریم چند کے بعد کے افسانہ نگاروں نے حقیقت نگاری کا سلیقہ سیکھا ۔ اور یہی افسانہ ترقی پسند افسانہ نگاری کے لئے ایک احساس بن کر سامنے آیا۔

کفن میں پریم چند حقیقت کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ اور یہ بتاتے ہیں کہ بھوک اور ناداری کی انتہا انسان کو صوانیت کی سطح پر لے آتی ہے اور وہ رشتوں کا احساس بھی بھول جاتے ہیں۔  جب بدھیا زچگی کے درد میں مبتلا ہے ۔ اور مرنے کے قریب ہے لیکن اس کے قریب ترین رشتہ داری اس کا خاونداور سسر کو  اس کی مدد کرنے کا سوچ بھی نہیں رہے۔

 

بے حسی :

             جاڑوں کی گہری طویل رات ہے ۔ مادھو کی بیوی زچگی کہ درد میں مبتلا ہے جس جان کنی اور کرب میں مبتلا ہے وہ اعصاب شکن ہے ۔ گھیسو اور مادھو، باپ بیٹا ،اس کی مدد کرنے کا سوچ بھی نہیں رہےرہے” مرنا ہے تو مر کیوں نہیں جاتی “جہاں اس اعصاب شکن دباؤ سے نجات حاصل کرنے کی خواہش کا عکاس ہے، وہاں یہ فقرہ  بے چارگی اور بے بسی کو قبول کر کے کوشش اور کاوش سے دست کش ہو چکے ہونے کی  الم ناک کفیت کا بھی ظاہر کر رہا ہے (محنت کرنے والے کسانوں کی حالت ان کام چور کاہلوں سے مختلف نہیں، اس لیے بھی اس میں کام کرنے کی کوشش ، تمنا اور محرک باقی نہیں رہ گیا) ۔دونوں پر ایسی بے حسی طاری ہے کہ اندر مادھو کی بیوی موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے اور جھونپری کے باہر دونوں باپ بیٹا چوری کے آلو بھون کر پیٹ کی آگ بجھانے میں مشغول ہیں ۔

           گھیسو بڑے رسان سے تبصرہ کرتا ہے” معلوم ہوتا ہے  بچے گی  نہیں“ گویا کسی کا مر جانا کوئی بات ہی نہیں . وہ مادھو کو کہتا  ہے” سارا دن تڑپتے ہو گیا ہے جا دیکھ تو آ “ مادھو انکار کر دیتا ہے۔  اس پر گھیسوکہتا ہے” تو بڑا بے درد ہے۔ “ بہ ظاہر مادھو کا کچھ نہ کرنے کا رویہ ” بےدردی “کا رویہ  ہی ہے۔ ہر دیکھنے والا والا اور سننے والا یہی رائے قائم کرے گا مادھو درحقیقت بہت بیدرد ہے نہیں۔                        

            اس کی ذہنی حالت بے بسی کا پیدا کردہ ہے بے  بسی کی نہیں۔ درد د  تو وہ محسوس کرتا ہے۔ اور کہتا ہے” تم مجھ سے اس کا تڑپنا نا اور ہاتھ پاؤں پٹکنا دیکھا نہیں جاتا۔ “پریم چند نے لکھا ہے”(وہ) دردناک اک لہجے میں بولا“مرنا ہے تو تو مر کیوں نہیں جاتی؟دیکھ کر کیا آؤں “اسے معلوم ہے پیسہ ہے نہیں. علاج معالجے کے لئے بھی ان کی ہڈ حرامی میں اور کام چوری وبے غیرتی کی شہرت کی بنا پر درکار پیسہ ملنا ممکن نہیں۔ درکار طبی مدد اور دایہ کو وہ معاوضہ دینے کے لئے پاس کچھ نہیں۔ وہ کرے تو کیا کرے؟پھر اوپر سے وہ تو ہمات کے اسیر بھی ہیں۔ گھیسو کا فقرہ” جا کر دیکھ تو کیا حالت ہے؟اس کی چڑیل کا پھنساؤ  ہوگا  ۔ اور کیا “اس حقیقت کی نشاندہی کر رہا ہے وہ وہ ایسے انسان ہیں جو شرف شرف انسانیت بہت سے گر چکے ہیں  اور اور صرف صرف جسمانی و حیوانی سطح پر زندہ

ہیں بیٹا اٹھنا نہیں چاہتا کہ کہیں نہیں باپ سارےالو ہڑپ نہ کر جائے۔ پریم چند نے لکھا ہے” مادھو کا اندیشہ تھا کہ وہ کوٹھڑی میں گیا تو  گھیسو آلوؤں کا بڑا حصہ صاف کر دے گا “۔

ہندوستانی نقاد  ڈاکٹر نگہت  ریحانہ نے اردو کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔

          ” پہلے تو وہ اپنی غریبی کو نوشتہ تقدیر ر سمجھ کر چپکے بیٹھے رہتے تھے لیکن اب انہیں اپنی مفلسی اور اونچے طبقے کی امارت کا راز معلوم ہو گیا تھا۔ اب وہ ایسے لوگوں کے آگے دست سوال دراز کرنا نہیں چاہتے تھے ۔ جب ان کی زبوں حالی کے ذمہ دار تھے مجھے بہتر ہوتا اگر اس طبقہ کے خلاف ان کے دلوں میں نفرت کا جذبہ اتنا شدید  ہوتا کہ وہ ان کے خلاف بغاوت کرکے میدان عمل میں اتر آتے۔ تب شاید سماج کی برائیوں کو دور کرنے کا یہ اقدام ان کے  کردارکو مکمل بنا دیتا لیکن ایسا نہیں ہوتا وہ محض سماج کے ناکارہ اور غیر سماجی عناصر کے روپ میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔“

 

           گھیسو اور مادھو بھیک مانگنے کو برا نہیں سمجھتے وہ اس پر نادم نہیں وہ بھیک مانگنے کو برا نہیں سمجھتے اور بھیک مانگنے جاتے ہیں ۔ اور اداکاری کے لیے آنکھوں میں آنسو بھر کے بھیک مانگتے ہیں۔ انہیں زمینداروں اور بنیوں سے بھیک مانگنے میں کوئی ہار نہیں۔

 

·     غربت :

           باپ بیٹے کی انسانی رشتے کی محبت اور قربانی دینے کا جذبے کی جگہ بھوک اور غربت و پسماندگی کی پیدا کردہ خودغرضی نے لے لی ہے ۔ ان پر ایک ایسی بے حسی  طاری ہو چکی ہے جو خود غرضی،غربت، ناامیدی اور بے چارگی کی پیدا کردہ ہے ۔ وہ سوچتے ہیں کہ رائج استحصالی نظام میں محنت کا صلہ نہیں ملتا ۔ کے محنت کرنے والے کی حالت ان سے بہتر نہیں تو پھر میں نے تم شوکت کی طرح کیوں اضافی طور پر بھگتی جائے؟ پریم چند نے لکھا ہے ۔ ”اسے یہ تسکین تو تھی ہی کہ اگر وہ خستہ حال ہے تو کم از کم اسے کسانوں کی سی جگر توڑ محنت تو نہیں کرنی پڑرہی اور اس کی سادگی اور بے زبانی سے دوسرے بےجا فائدہ تو نہیں اٹھاتے ۔ “ان میں قدیم معاشرتی اور روایتی مردانہ غیرت بھی مر چکی  ہے ۔ انہیں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ عورت کی کمائی سے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں ۔

 

          گھیسو سمجھتا ہےکی وفاداری اور رفاقت حیات کا حق ادا کرنے کا موثر طریقہ یہ ہے کہ پائنتی پکڑ کر بیٹھا رہا جائے ۔ وہ مادھو سی کہتا ہے کہ”میری عورت جب مری تھی تو میں تین دن تک اس کے پاس سے ہلا بھی نہیں ۔“

 

             گھیسو عجیب عجیب توجیہا رکھتا ہے ۔ اس کی غربت صرف اس کی نہیں ۔ اس جیسے لاکھوں کروڑوں انسانوں کی المناک زندگی کا یہ کیسا عبرتناک اور لرزا خیز المیہ ہے کہ زندگی میں ایک بار  خیرات کے طور پر ٹھاکر کی شادی کے موقع پر پیٹ بھر کر اچھا کھانا کھانے کے واحدعیاشی وہ بھلائے نہیں بھول پاتا وہ یاد شائداس کی زندگی کے واحد راحت خوشی اور آسودگی کی یاد ہے اس بارے میں بھی گھیسو کہتا ہے ۔ ظ

 

           اب ہمیں کوئی ایسا بھوج کھلاتا؟اب کوئی کیا کھلائے گا وہ جمانا دوسرا تھا ۔ اب تو سب کو کھپایت کی سوجھتی ہے ۔ سادی بیاہ میں مت کھرچ کرو،کریاکرم میں مت کھرچ کرو،پوچھو گریبوں کا مال بٹور کر کر کہاں رکھو گے؟مگر بٹورنے میں تو کمی نہیں ہے، ہاں کھرچ میں نے کپھائت کی سوجھتی ہے۔“

          مادھو پوچھتا ہے تم نے” ایک بیس پوڑیاں کھائیں ہوں گی۔ بیس سے جیادہ کھائی تھیں “۔ ”میں پچاس کھا جاتا“. یہ کیسی الم ناک حسرت ہے۔  پریم چند نے لکھا ہے ۔ ”اس دعوت میں اسے جو سیری نصیب ہوئی تھی وہ اس کی زندگی میں ایک یادگار واقعہ تھی اور آج بھی اس کی یاد تازہ تھی. گھیسو کہتا ہے۔ وہ بھوج نہیں بھولتا ۔ وہ نہایت حسرت اور لطف سے اس کا نقشہ کھینچتا چلا جاتا ہے۔

 

·    طنز :

         طنز کا عنصر بھی اس افسانے میں نمایا اور حاوی نظر آتا ہے ۔ یہ طنز بھی   بیانات میں ہے اور کہیں مکالمہ اپنے طنز کا روخ کبھی صاحب کاروں اور دولت مند لوگوں کی طرف ہوتا ہے اور کبھی اس کا اشارہ ہمارے معاشرے کی طرف ہے ۔ جس میں طبقات کی تقسیم ذات پات اور معاشی بنیادوں پر کی گئی ہے ۔ پریم چند نے اس افسانے میں بڑے فنکارانہ انداز میں معاشرے کے رسم و قبود پر طنز  کیا ہے ۔ جس غریب کو ساری عمرتن ڈھانپنے  کے لئے کپڑا میسر نہ آتا ہو،اس  اس کے لئے نیک فن کی ضرورت نہیں ۔ جو مردے کے ساتھ جل جاتا ہے۔  کفن کی قیمت ادا کرنے کے لئے تو پیسے مل جاتے ہیں ۔ لیکن علاج اور دوا کے لئے نہیں، اسی طرح پورے افسانے میں طنز کی لہر جگہ جگہ موجود ہے۔

باغ و بہار کے پہلے درویش اور درویش کی بہن کا کردار

 

  درویش کا کردار:

      جہاں تک باغ و بہار کے درویشوں کے کرداروں پر ناقدانہ تبصرے کا تعلق ہے ۔ تو اس کے پہلے درویشوں کا کردار  نکما اور بودا ہے ۔ پہلا درویش  یمن کے ملک التجا کا اکلوتا بیٹا تھا۔ جو بےجا لاڈ پیار کی وجہ سے بڑا اتنا آسان ہو چکا تھا دولت کی فراوانی تھی اور ناز و نعیم اور آسودگی کی تعلیم و تربیت کی وجہ سے اس میں خود اعتمادی پیدا نہ ہوسکی۔ اس کا باپ ہمارا تو سہارا تو سارا سرمایہ اس کے ہاتھ لگا مگر اپنے لچے لفنگے یاروں کی مصاحبت سے اس نہ وہ تمام مال و دولت چند دنوں میں اڑا ڈالیں اور کنگال ہو گیا۔ اس افسانے میں موجود کیا کردار سب سے برا کردار کہلاتا لاتا ہے ۔ کیونکہ اس نے اپنے تمام کام خود پر چھوڑ دیا اور خود ہمیشہ موج مستی میں مصروف رہا ۔  اور ہمیشہ اپنے باپ کے پیسوں پر زندگی گزاری اور ساتھ اپنے نکمے دوستوں پر بھی پیسے اڑاتا رہا۔

             

           ” کئی برس کے عرصے میں یک بارگی یہ حالت ہوئی کہ ٹوپی اور لنگوٹی باقی رہی ۔ دوست آشنا جو دانت کاٹی روٹی کھاتے تھے  اور چمچا بارہ اپنا ہر بات میں زبان سے نثار کرتے تھے کفور ہو گئے ۔ سوائے غم اور افسوس کے کوئی رفیق نہ ٹھہرا ۔ "

            جب کوئی سہارا آسرا نہ رہا تو اسے اپنی سگی بہن یاد آئی عید کے دنوں میں  جسے کبھی یاد بھی نہیں کیا  ڈھیٹ ہو کر اس کے در پر آ گیا اس کی بہن بڑی حوصلہ مند اور دور اندیش خاتون تھیں اس نے نہ صرف محبت و شفقت سے اس کی حوصلہ افزائی  کی بلکہ اس کی بددلی کو ہمت دری میں تبدیل کرتے ہوئے اسے سرمایہ  دے کر تجارت کی غرض سے قافلے کے ہمراہ روانہ کیا درویش نے مال تجارت اہل کے سپرد کر دیا اور خود دمشق روانہ ہو گیا تاکہ وہ قافلے سے پہلے وہاں پہنچ جائے ۔ بہن کے مقابلے میں بھائ کا کردار بڑا نکما اور نہایت برا ہے جسے خود بھی   اعتماد نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کوئ اقدام کرنے کی ہی صلاحیت  ہے تو وہ ایک حسینہ کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہو کر اپنے فرائض سے غافل ہوجاتا ہے۔  نہ تو اسے اپنے ماضی یاد رہتا ہے اور نہ ہی بہن کی آرزو ۔ وہ پھر اپنا سب کچھ لٹا کر پہلے سے بھی بدتر صورتحال کا شکار ہو جاتا ہے اور اس عورت کے اشاروں پر ناچنے لگتا ہے لیکن وہاں عیارحسینہ اسے اپنا کوئی بھی نہیں بتاتی بہت دائیں بائیں بڑی دوڑ دھوپ کرتا ہے اور سیدی بہار سے لے کر یوسف  سوداگر تک چکر کاٹنا پڑتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو اس کا اپنا دماغ تھا اور نہ ہی کوئی ضمیر نہ ارادہ نہ مقصد نہ راستہ نہ کوئی منزل وہ چلا ہی جاتا ہے مگر اس کی دماغ میں کوئی ایک سوال بھی  پیدا نہیں ہوتا اور اگر کوئی سوال ابھرتا ہے تو اس کا جواب تلاش کرنے کی بالکل کوشش نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی سرگرمی دکھاتا ہے یہاں تک کہ یوسف سوداگر کی میزبانی کرتے ہوئے خود بھی نشے میں دھت ہوجاتا ہے اور اسے دنیا و مافیا کی کوئی خبر نہیں رہتی اور جب آنکھ کھلتی ہے تو اور ہی نقشہ سامنے آتا ہے۔

 

              جب صبح ہوئی اور آفتاب دو نیزے بلند ہوا ، تب میری آنکھ کھلی تو دیکھا میں نے ، نہ وہ تیاری ہے نہ وہ مجلس، نہ وہ پری، فقط خالی پڑی ہے مگر ایک کونے میں کمبل میں لپٹا ہوا دھرا ہے ۔ جو اس کو کھول کر دیکھا وہ جوان اور اس کی رنڈی دونوں سر کٹے پڑے ہیں ۔ یہ حالت دیکھتے ہی آواز جاتے رہے۔   عقل کچھ کام نہیں کرتی کہ یہ کیا تھا اور کیا ہو گیا " ۔

 

               جب کچھ ہوش نے کام کیا تو اس شو کی تلاش  شروع ہوئی ۔ جب اس کا سراغ ملا تو اس حسینہ نے فقط اتنا ہی کہا کہ توڑے  اشرفی لے کر وطن لوٹ جائے۔ اور درویش کا سارا عشق ٹنڈہ پڑ گیا اور اس کی یہ حالت ہوئی کہ وہ یہ بات سنتے ہی کاٹھ کا ہوگیا اور ایسا سوکھ کیا کہ اگر کوئی میرے بدن کو کاٹے تو ایک بوند لہو کی نہ نکلے اور تمام دنیا آنکھوں کے آگے اندھیری لگنے لگی اور ایک آہ نامرادی کی بے اختیار جگر سے نکلی اور آنکھوں سے آنسو بھی ٹپکنے لگے ۔ پھر وہ بڑی بیچارگی سے اپنی جان ساری اور اپنی خدمت گزاری کا واسطہ دے کر اپنے دل کی بات اپنے لبوں پر لاتا ہے ، تو وہاں عیارحسینہ طنزیہ انداز میں کہتی ہے کہ چہ خوش آپ ہمارے عاشق ہیں ۔ مینڈکی کو بھی زکام ہوا، اے بے وقوف اپنے حوصلہ سے زیادہ باتیں بنانا خیال خام ہے، چھوٹا منہ بڑی بات بس جو پڑھا کے یانک میں بات چیت مت کر ۔  اس نے یہ تمام باتیں اس طرح ہنستے ہوئے ہیں ، کیونکہ وہ بھی اسے نکما سمجھتی اور زیادہ اہمیت نہ دیتی ۔ کیونکہ اس نے کبھی اپنی زندگی اور ترقی کے بارے میں نہیں سوچا اور اگر سوچا بھی تو اس پر عمل نہیں کیا۔ جس سے یہ ایک نکما اور برا کردار نظر آتا ہے ۔

 

            کیونکہ اس حسینہ کے جواب سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ درویش کے کردار میں مردانگی کی موجود ہی نہیں دلکشی و فعالیت اور اور ہمدردی بھی ناپید ہے۔ غرض یہ ایک مجہول اور بودا کا کردار ہے۔ جس میں دوسروں کو متاثر کرنے کی بالکل اہلیت نہیں ہے اور یہ ایسا غیر موثر اور برائے نام کردار ہے کہ جو تقدیر کے نام پر دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا بنا ہوا ہے۔ جو خود کچھ کام نہیں کرتا اور تقدیر پر سب کام چھوڑ کر خود ہاتھ دھرے بیٹھا ہے ۔ بالآخر درویش کی اس خوبصورت عورت سے شادی ہوجاتی ہے اور یہ واقعہ بھی کسی حادثے سے کم نہیں ہوتا اور بایں ہمہ بھی اس میں حوصلے و امت کی دور دور تک آثار نظر نہیں آتے۔ گویا کامیابیاں حاصل کر لینے کے بعد بھی وہ کامیابی سے محروم رہا۔ جو درویش کی کوتاہ فہمی اور نکمے پن کی بین دلیل ہے ۔ وہ دریا پار کرنے کی سوچنے لگا تو پری کو حیران جنگل میں تنہا پیڑ کے نیچے بیٹھا گیا ۔ اور یہیں سے ہی اس کی بدنصیبی کا آغاز ہوا ۔

       

            غرض درویش کی تمام کہانی میں ہر جگہ ہر مقام پر اس کی قسمت نے اس کا ساتھ دیا اور قدرت اس پر مہربان رہی لیکن اس نے ہر بار اور ہر مقام پر اپنی کم فہمی ، کم ہمتی ، بے عملی کے ہاتھوں سب کچھ ضائع کردیا۔ ورثے میں دولت ملی تو عیش و عشرت میں اور نکمے دوستوں کے ساتھ مل کر ضائع کردی۔ مہربان اور شفیق بہن ملی اور اس نے اس کا ہاتھ تھاما اور اسے روپیہ دے کر قافلے کے ہمراہ روانہ کیا تو اس نے سب کچھ بھول بھلا کر ایک خوبصورت حسینہ کے عشق میں اس کی غلامی اپنا لیں اور بہن تک کا خیال نہ آیا۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہر جگہ اپنی کمزور کردار کی وجہ سے مصائب ہیں میں مبتلا رہا اور کسی مقام پر بھی کوئی موثر اقدام نہ کر سکا۔

 

    درویش کی بہن کا کردار:

               پہلے درویش کی بہن کا کردار بھی ایک  قابل ذکر کردار ہے اور میر امن نے اس کردار کیکچھ ایسے الفاظ میں نقش گری کی ہے کہ انہیں بے ساختہ داد دینے کو جی چاہنے لگتا ہے پہلا درویش اس کا حال کچھ اس طرح بیان کرتا ہے کہ :

              وہ ماں جائ میرا یہ حال دیکھ کر بلائیں لے گلے مل کر بہت روئی تل ماش اور کالے ٹکے مجھ پر سے صدقے کیے اور کہنے لگی ،اگرچہ ملاقات سے  دل بہت خوش ہوا لیکن بھیا تیری یہ کیا صورت بنی ؟ کئی مہینے اس کے ہاں آرام سے رہا پھر وہ ایک دن نہایت شفقت سے بولی ۔” اےبیرن تم میری آنکھوں کی پتلی اور ماں باپ کی موئ مٹی کی نشانی ہے ۔  تیرے آنے سے میرا کلیجہ ٹھنڈا ہوا جب تجھے دیکھتی ہوں باغ باغ ہو جاتی ہوں ۔  تو نے مجھے نہال کیا لیکن مردوں کو خدا نے کمانے کے لئے بنایا ہے گھر میں بیٹھے رہنا ان کو لازم نہیں ۔  جو مرد نکھٹو ہو کر گھر سیتا ہے ۔ اس کو دنیا کے لوگ طعنہ مہنا  دیتے ہیں ۔ خصوصا اس شہر کے آدمی چھوٹے بڑے بے سبب تمہارے رہنے پر کہیں کہ  اپنے باپ کی دولت دنیا کھو کھا کر بہنوئی  کے ٹکڑوں پر پڑا یہ نہایت بے غیرتی اور میری تمہاری ہنسائی اور ماں باپ کے نام کو سبب لاج لگنے کا ہے  تو میں نے اپنے  چمڑے کی جوتیاں بنا کر تجھے  بناؤ اور کلیجے میں ڈال کر رکھو۔"

   

      اس اقتباس کو پڑھتے ہوئے جس دن کا تصور ہمارے ذہن میں اجاگر ہوتا ہے وہ سر سے پاؤں تک ایک ہندوستانی بینک کا تصور ہے جیسے کالی داس کی شکنتلا کو ہر ہندوستانی ہندو اپنی بیٹی سمجھتا ہے اس طرح برصغیر کا ہر مسلمان اسے اپنی بہن گردانتا ہے ۔   ایک ایسی بین چین کی جسے اپنے بھائی سے از حد درجہ محبت ہے ہے جو اپنی بدحالی پر رنجیدہ اور خوشحالی کی آس لگائے ہوئے ہیں اور جو ایک ہی وقت میں اپنے بھائی خاوند اور مرے ہوئے ماں باپ کی لاج رکھنے کی خواہاں ہے۔

 

·     نتیجہ :

             میر امن کے افسانے باغ و بہار کے درویش اور درویش کی بہن کے کردار کے مطالعہ کے بعد ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس افسانے میں میں درویش کا کردار نکمہ اور بہت برا ہے اور اس کی بہن کا کردار اچھائی پر ہے ۔ ان دونوں کرداروں کو دیکھتے ہوئے ہمیں اپنی اور اپنے معاشرے کی اصلاح کرنی چاہیے۔

عمران خان نے اپنے حکوت میں کیا کیا کام کیے

  عمران _ خان   نےساڑھے _ تین _ سالوں _ میں _ کیا _ کیا .. ؟ 1 ⃣ - ہالینڈ کی حکومت سے   گستاخانہ خاکوں کی نماٸش کو رکوایا . 2 ...