Thursday, March 10, 2022

تری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

سمندر میں اترتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

تری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

 

تمہارا نام لکھنے کی اجازت چھن گئی جب سے

کوئی بھی چہرہ پڑھتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

 

ارادہ روز کرتا ہوں کہ اُن سے حالِ دل کہہ دوں

مگر وہ روبرو آئیں  تو کانپیں ٹانگ  جاتی  ہیں 

 

ناجانے ہو گیا ہوں اس قدر حساس میں کب سے

کسی سے بات کرتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں۔

 

تری یادوں کی خوشبو کھڑکیوں میں رقص کرتی ہے

تیرے غم میں سلگتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں۔

 

میں سارا دن بہت مصروف رہتا ہوں مگر جونہی،

قدم چوکھٹ پہ رکھتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں ۔

 

ہر اک مفلس کے ماتھے پر الم کی داستانیں ہیں

کوئی چہرہ بھی پڑھتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں۔

 

بڑے لوگوں کے اونچے، بدنما اور سرد محلوں کو

غریب آنکھوں سے تکتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں۔۔

 

میں ہنس کے جھیل لیتا ہوں جدائی کی سبھی رسمیں

گلے جب اسکے لگتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں۔

 

ہزاروں موسموں کی حکمرانی ہے میرے دل پر

وصی میں جب بھی ہنستا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

پریم چند کے افسانے کفن کا فکری جائزہ

 

Ø پریم چند کے افسانے کفن کا فکری جائزہ۔

افسانہ کفن میں پریم چند نے جن معاشرتی ناسور پر اپنے فن کا نشتر چبھویا اس میں سارے فاسد مادے اور کریہہ مواد کو بہہ جانے پر مجبور کردیا ہے ۔  غربت و  افلاس اور پست ہمتی کے ہاتھوں معاشرتی تقدیس کے ردا جس بری طرح سے تار تار ہو گئی ہے ۔ اس کی جھلک اس افسانے میں ملتی ہے ۔   افسانہ نگار نے اسی معاشرتی کجی اور سماجی بد ہیئتی کی طرف توجہ دلائی ہے .

            پریم چند کے بعد کے افسانہ نگاروں نے حقیقت نگاری کا سلیقہ سیکھا ۔ اور یہی افسانہ ترقی پسند افسانہ نگاری کے لئے ایک احساس بن کر سامنے آیا۔

کفن میں پریم چند حقیقت کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ اور یہ بتاتے ہیں کہ بھوک اور ناداری کی انتہا انسان کو صوانیت کی سطح پر لے آتی ہے اور وہ رشتوں کا احساس بھی بھول جاتے ہیں۔  جب بدھیا زچگی کے درد میں مبتلا ہے ۔ اور مرنے کے قریب ہے لیکن اس کے قریب ترین رشتہ داری اس کا خاونداور سسر کو  اس کی مدد کرنے کا سوچ بھی نہیں رہے۔

 

بے حسی :

             جاڑوں کی گہری طویل رات ہے ۔ مادھو کی بیوی زچگی کہ درد میں مبتلا ہے جس جان کنی اور کرب میں مبتلا ہے وہ اعصاب شکن ہے ۔ گھیسو اور مادھو، باپ بیٹا ،اس کی مدد کرنے کا سوچ بھی نہیں رہےرہے” مرنا ہے تو مر کیوں نہیں جاتی “جہاں اس اعصاب شکن دباؤ سے نجات حاصل کرنے کی خواہش کا عکاس ہے، وہاں یہ فقرہ  بے چارگی اور بے بسی کو قبول کر کے کوشش اور کاوش سے دست کش ہو چکے ہونے کی  الم ناک کفیت کا بھی ظاہر کر رہا ہے (محنت کرنے والے کسانوں کی حالت ان کام چور کاہلوں سے مختلف نہیں، اس لیے بھی اس میں کام کرنے کی کوشش ، تمنا اور محرک باقی نہیں رہ گیا) ۔دونوں پر ایسی بے حسی طاری ہے کہ اندر مادھو کی بیوی موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے اور جھونپری کے باہر دونوں باپ بیٹا چوری کے آلو بھون کر پیٹ کی آگ بجھانے میں مشغول ہیں ۔

           گھیسو بڑے رسان سے تبصرہ کرتا ہے” معلوم ہوتا ہے  بچے گی  نہیں“ گویا کسی کا مر جانا کوئی بات ہی نہیں . وہ مادھو کو کہتا  ہے” سارا دن تڑپتے ہو گیا ہے جا دیکھ تو آ “ مادھو انکار کر دیتا ہے۔  اس پر گھیسوکہتا ہے” تو بڑا بے درد ہے۔ “ بہ ظاہر مادھو کا کچھ نہ کرنے کا رویہ ” بےدردی “کا رویہ  ہی ہے۔ ہر دیکھنے والا والا اور سننے والا یہی رائے قائم کرے گا مادھو درحقیقت بہت بیدرد ہے نہیں۔                        

            اس کی ذہنی حالت بے بسی کا پیدا کردہ ہے بے  بسی کی نہیں۔ درد د  تو وہ محسوس کرتا ہے۔ اور کہتا ہے” تم مجھ سے اس کا تڑپنا نا اور ہاتھ پاؤں پٹکنا دیکھا نہیں جاتا۔ “پریم چند نے لکھا ہے”(وہ) دردناک اک لہجے میں بولا“مرنا ہے تو تو مر کیوں نہیں جاتی؟دیکھ کر کیا آؤں “اسے معلوم ہے پیسہ ہے نہیں. علاج معالجے کے لئے بھی ان کی ہڈ حرامی میں اور کام چوری وبے غیرتی کی شہرت کی بنا پر درکار پیسہ ملنا ممکن نہیں۔ درکار طبی مدد اور دایہ کو وہ معاوضہ دینے کے لئے پاس کچھ نہیں۔ وہ کرے تو کیا کرے؟پھر اوپر سے وہ تو ہمات کے اسیر بھی ہیں۔ گھیسو کا فقرہ” جا کر دیکھ تو کیا حالت ہے؟اس کی چڑیل کا پھنساؤ  ہوگا  ۔ اور کیا “اس حقیقت کی نشاندہی کر رہا ہے وہ وہ ایسے انسان ہیں جو شرف شرف انسانیت بہت سے گر چکے ہیں  اور اور صرف صرف جسمانی و حیوانی سطح پر زندہ

ہیں بیٹا اٹھنا نہیں چاہتا کہ کہیں نہیں باپ سارےالو ہڑپ نہ کر جائے۔ پریم چند نے لکھا ہے” مادھو کا اندیشہ تھا کہ وہ کوٹھڑی میں گیا تو  گھیسو آلوؤں کا بڑا حصہ صاف کر دے گا “۔

ہندوستانی نقاد  ڈاکٹر نگہت  ریحانہ نے اردو کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔

          ” پہلے تو وہ اپنی غریبی کو نوشتہ تقدیر ر سمجھ کر چپکے بیٹھے رہتے تھے لیکن اب انہیں اپنی مفلسی اور اونچے طبقے کی امارت کا راز معلوم ہو گیا تھا۔ اب وہ ایسے لوگوں کے آگے دست سوال دراز کرنا نہیں چاہتے تھے ۔ جب ان کی زبوں حالی کے ذمہ دار تھے مجھے بہتر ہوتا اگر اس طبقہ کے خلاف ان کے دلوں میں نفرت کا جذبہ اتنا شدید  ہوتا کہ وہ ان کے خلاف بغاوت کرکے میدان عمل میں اتر آتے۔ تب شاید سماج کی برائیوں کو دور کرنے کا یہ اقدام ان کے  کردارکو مکمل بنا دیتا لیکن ایسا نہیں ہوتا وہ محض سماج کے ناکارہ اور غیر سماجی عناصر کے روپ میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔“

 

           گھیسو اور مادھو بھیک مانگنے کو برا نہیں سمجھتے وہ اس پر نادم نہیں وہ بھیک مانگنے کو برا نہیں سمجھتے اور بھیک مانگنے جاتے ہیں ۔ اور اداکاری کے لیے آنکھوں میں آنسو بھر کے بھیک مانگتے ہیں۔ انہیں زمینداروں اور بنیوں سے بھیک مانگنے میں کوئی ہار نہیں۔

 

·     غربت :

           باپ بیٹے کی انسانی رشتے کی محبت اور قربانی دینے کا جذبے کی جگہ بھوک اور غربت و پسماندگی کی پیدا کردہ خودغرضی نے لے لی ہے ۔ ان پر ایک ایسی بے حسی  طاری ہو چکی ہے جو خود غرضی،غربت، ناامیدی اور بے چارگی کی پیدا کردہ ہے ۔ وہ سوچتے ہیں کہ رائج استحصالی نظام میں محنت کا صلہ نہیں ملتا ۔ کے محنت کرنے والے کی حالت ان سے بہتر نہیں تو پھر میں نے تم شوکت کی طرح کیوں اضافی طور پر بھگتی جائے؟ پریم چند نے لکھا ہے ۔ ”اسے یہ تسکین تو تھی ہی کہ اگر وہ خستہ حال ہے تو کم از کم اسے کسانوں کی سی جگر توڑ محنت تو نہیں کرنی پڑرہی اور اس کی سادگی اور بے زبانی سے دوسرے بےجا فائدہ تو نہیں اٹھاتے ۔ “ان میں قدیم معاشرتی اور روایتی مردانہ غیرت بھی مر چکی  ہے ۔ انہیں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ عورت کی کمائی سے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں ۔

 

          گھیسو سمجھتا ہےکی وفاداری اور رفاقت حیات کا حق ادا کرنے کا موثر طریقہ یہ ہے کہ پائنتی پکڑ کر بیٹھا رہا جائے ۔ وہ مادھو سی کہتا ہے کہ”میری عورت جب مری تھی تو میں تین دن تک اس کے پاس سے ہلا بھی نہیں ۔“

 

             گھیسو عجیب عجیب توجیہا رکھتا ہے ۔ اس کی غربت صرف اس کی نہیں ۔ اس جیسے لاکھوں کروڑوں انسانوں کی المناک زندگی کا یہ کیسا عبرتناک اور لرزا خیز المیہ ہے کہ زندگی میں ایک بار  خیرات کے طور پر ٹھاکر کی شادی کے موقع پر پیٹ بھر کر اچھا کھانا کھانے کے واحدعیاشی وہ بھلائے نہیں بھول پاتا وہ یاد شائداس کی زندگی کے واحد راحت خوشی اور آسودگی کی یاد ہے اس بارے میں بھی گھیسو کہتا ہے ۔ ظ

 

           اب ہمیں کوئی ایسا بھوج کھلاتا؟اب کوئی کیا کھلائے گا وہ جمانا دوسرا تھا ۔ اب تو سب کو کھپایت کی سوجھتی ہے ۔ سادی بیاہ میں مت کھرچ کرو،کریاکرم میں مت کھرچ کرو،پوچھو گریبوں کا مال بٹور کر کر کہاں رکھو گے؟مگر بٹورنے میں تو کمی نہیں ہے، ہاں کھرچ میں نے کپھائت کی سوجھتی ہے۔“

          مادھو پوچھتا ہے تم نے” ایک بیس پوڑیاں کھائیں ہوں گی۔ بیس سے جیادہ کھائی تھیں “۔ ”میں پچاس کھا جاتا“. یہ کیسی الم ناک حسرت ہے۔  پریم چند نے لکھا ہے ۔ ”اس دعوت میں اسے جو سیری نصیب ہوئی تھی وہ اس کی زندگی میں ایک یادگار واقعہ تھی اور آج بھی اس کی یاد تازہ تھی. گھیسو کہتا ہے۔ وہ بھوج نہیں بھولتا ۔ وہ نہایت حسرت اور لطف سے اس کا نقشہ کھینچتا چلا جاتا ہے۔

 

·    طنز :

         طنز کا عنصر بھی اس افسانے میں نمایا اور حاوی نظر آتا ہے ۔ یہ طنز بھی   بیانات میں ہے اور کہیں مکالمہ اپنے طنز کا روخ کبھی صاحب کاروں اور دولت مند لوگوں کی طرف ہوتا ہے اور کبھی اس کا اشارہ ہمارے معاشرے کی طرف ہے ۔ جس میں طبقات کی تقسیم ذات پات اور معاشی بنیادوں پر کی گئی ہے ۔ پریم چند نے اس افسانے میں بڑے فنکارانہ انداز میں معاشرے کے رسم و قبود پر طنز  کیا ہے ۔ جس غریب کو ساری عمرتن ڈھانپنے  کے لئے کپڑا میسر نہ آتا ہو،اس  اس کے لئے نیک فن کی ضرورت نہیں ۔ جو مردے کے ساتھ جل جاتا ہے۔  کفن کی قیمت ادا کرنے کے لئے تو پیسے مل جاتے ہیں ۔ لیکن علاج اور دوا کے لئے نہیں، اسی طرح پورے افسانے میں طنز کی لہر جگہ جگہ موجود ہے۔

باغ و بہار کے پہلے درویش اور درویش کی بہن کا کردار

 

  درویش کا کردار:

      جہاں تک باغ و بہار کے درویشوں کے کرداروں پر ناقدانہ تبصرے کا تعلق ہے ۔ تو اس کے پہلے درویشوں کا کردار  نکما اور بودا ہے ۔ پہلا درویش  یمن کے ملک التجا کا اکلوتا بیٹا تھا۔ جو بےجا لاڈ پیار کی وجہ سے بڑا اتنا آسان ہو چکا تھا دولت کی فراوانی تھی اور ناز و نعیم اور آسودگی کی تعلیم و تربیت کی وجہ سے اس میں خود اعتمادی پیدا نہ ہوسکی۔ اس کا باپ ہمارا تو سہارا تو سارا سرمایہ اس کے ہاتھ لگا مگر اپنے لچے لفنگے یاروں کی مصاحبت سے اس نہ وہ تمام مال و دولت چند دنوں میں اڑا ڈالیں اور کنگال ہو گیا۔ اس افسانے میں موجود کیا کردار سب سے برا کردار کہلاتا لاتا ہے ۔ کیونکہ اس نے اپنے تمام کام خود پر چھوڑ دیا اور خود ہمیشہ موج مستی میں مصروف رہا ۔  اور ہمیشہ اپنے باپ کے پیسوں پر زندگی گزاری اور ساتھ اپنے نکمے دوستوں پر بھی پیسے اڑاتا رہا۔

             

           ” کئی برس کے عرصے میں یک بارگی یہ حالت ہوئی کہ ٹوپی اور لنگوٹی باقی رہی ۔ دوست آشنا جو دانت کاٹی روٹی کھاتے تھے  اور چمچا بارہ اپنا ہر بات میں زبان سے نثار کرتے تھے کفور ہو گئے ۔ سوائے غم اور افسوس کے کوئی رفیق نہ ٹھہرا ۔ "

            جب کوئی سہارا آسرا نہ رہا تو اسے اپنی سگی بہن یاد آئی عید کے دنوں میں  جسے کبھی یاد بھی نہیں کیا  ڈھیٹ ہو کر اس کے در پر آ گیا اس کی بہن بڑی حوصلہ مند اور دور اندیش خاتون تھیں اس نے نہ صرف محبت و شفقت سے اس کی حوصلہ افزائی  کی بلکہ اس کی بددلی کو ہمت دری میں تبدیل کرتے ہوئے اسے سرمایہ  دے کر تجارت کی غرض سے قافلے کے ہمراہ روانہ کیا درویش نے مال تجارت اہل کے سپرد کر دیا اور خود دمشق روانہ ہو گیا تاکہ وہ قافلے سے پہلے وہاں پہنچ جائے ۔ بہن کے مقابلے میں بھائ کا کردار بڑا نکما اور نہایت برا ہے جسے خود بھی   اعتماد نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کوئ اقدام کرنے کی ہی صلاحیت  ہے تو وہ ایک حسینہ کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہو کر اپنے فرائض سے غافل ہوجاتا ہے۔  نہ تو اسے اپنے ماضی یاد رہتا ہے اور نہ ہی بہن کی آرزو ۔ وہ پھر اپنا سب کچھ لٹا کر پہلے سے بھی بدتر صورتحال کا شکار ہو جاتا ہے اور اس عورت کے اشاروں پر ناچنے لگتا ہے لیکن وہاں عیارحسینہ اسے اپنا کوئی بھی نہیں بتاتی بہت دائیں بائیں بڑی دوڑ دھوپ کرتا ہے اور سیدی بہار سے لے کر یوسف  سوداگر تک چکر کاٹنا پڑتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو اس کا اپنا دماغ تھا اور نہ ہی کوئی ضمیر نہ ارادہ نہ مقصد نہ راستہ نہ کوئی منزل وہ چلا ہی جاتا ہے مگر اس کی دماغ میں کوئی ایک سوال بھی  پیدا نہیں ہوتا اور اگر کوئی سوال ابھرتا ہے تو اس کا جواب تلاش کرنے کی بالکل کوشش نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی سرگرمی دکھاتا ہے یہاں تک کہ یوسف سوداگر کی میزبانی کرتے ہوئے خود بھی نشے میں دھت ہوجاتا ہے اور اسے دنیا و مافیا کی کوئی خبر نہیں رہتی اور جب آنکھ کھلتی ہے تو اور ہی نقشہ سامنے آتا ہے۔

 

              جب صبح ہوئی اور آفتاب دو نیزے بلند ہوا ، تب میری آنکھ کھلی تو دیکھا میں نے ، نہ وہ تیاری ہے نہ وہ مجلس، نہ وہ پری، فقط خالی پڑی ہے مگر ایک کونے میں کمبل میں لپٹا ہوا دھرا ہے ۔ جو اس کو کھول کر دیکھا وہ جوان اور اس کی رنڈی دونوں سر کٹے پڑے ہیں ۔ یہ حالت دیکھتے ہی آواز جاتے رہے۔   عقل کچھ کام نہیں کرتی کہ یہ کیا تھا اور کیا ہو گیا " ۔

 

               جب کچھ ہوش نے کام کیا تو اس شو کی تلاش  شروع ہوئی ۔ جب اس کا سراغ ملا تو اس حسینہ نے فقط اتنا ہی کہا کہ توڑے  اشرفی لے کر وطن لوٹ جائے۔ اور درویش کا سارا عشق ٹنڈہ پڑ گیا اور اس کی یہ حالت ہوئی کہ وہ یہ بات سنتے ہی کاٹھ کا ہوگیا اور ایسا سوکھ کیا کہ اگر کوئی میرے بدن کو کاٹے تو ایک بوند لہو کی نہ نکلے اور تمام دنیا آنکھوں کے آگے اندھیری لگنے لگی اور ایک آہ نامرادی کی بے اختیار جگر سے نکلی اور آنکھوں سے آنسو بھی ٹپکنے لگے ۔ پھر وہ بڑی بیچارگی سے اپنی جان ساری اور اپنی خدمت گزاری کا واسطہ دے کر اپنے دل کی بات اپنے لبوں پر لاتا ہے ، تو وہاں عیارحسینہ طنزیہ انداز میں کہتی ہے کہ چہ خوش آپ ہمارے عاشق ہیں ۔ مینڈکی کو بھی زکام ہوا، اے بے وقوف اپنے حوصلہ سے زیادہ باتیں بنانا خیال خام ہے، چھوٹا منہ بڑی بات بس جو پڑھا کے یانک میں بات چیت مت کر ۔  اس نے یہ تمام باتیں اس طرح ہنستے ہوئے ہیں ، کیونکہ وہ بھی اسے نکما سمجھتی اور زیادہ اہمیت نہ دیتی ۔ کیونکہ اس نے کبھی اپنی زندگی اور ترقی کے بارے میں نہیں سوچا اور اگر سوچا بھی تو اس پر عمل نہیں کیا۔ جس سے یہ ایک نکما اور برا کردار نظر آتا ہے ۔

 

            کیونکہ اس حسینہ کے جواب سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ درویش کے کردار میں مردانگی کی موجود ہی نہیں دلکشی و فعالیت اور اور ہمدردی بھی ناپید ہے۔ غرض یہ ایک مجہول اور بودا کا کردار ہے۔ جس میں دوسروں کو متاثر کرنے کی بالکل اہلیت نہیں ہے اور یہ ایسا غیر موثر اور برائے نام کردار ہے کہ جو تقدیر کے نام پر دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا بنا ہوا ہے۔ جو خود کچھ کام نہیں کرتا اور تقدیر پر سب کام چھوڑ کر خود ہاتھ دھرے بیٹھا ہے ۔ بالآخر درویش کی اس خوبصورت عورت سے شادی ہوجاتی ہے اور یہ واقعہ بھی کسی حادثے سے کم نہیں ہوتا اور بایں ہمہ بھی اس میں حوصلے و امت کی دور دور تک آثار نظر نہیں آتے۔ گویا کامیابیاں حاصل کر لینے کے بعد بھی وہ کامیابی سے محروم رہا۔ جو درویش کی کوتاہ فہمی اور نکمے پن کی بین دلیل ہے ۔ وہ دریا پار کرنے کی سوچنے لگا تو پری کو حیران جنگل میں تنہا پیڑ کے نیچے بیٹھا گیا ۔ اور یہیں سے ہی اس کی بدنصیبی کا آغاز ہوا ۔

       

            غرض درویش کی تمام کہانی میں ہر جگہ ہر مقام پر اس کی قسمت نے اس کا ساتھ دیا اور قدرت اس پر مہربان رہی لیکن اس نے ہر بار اور ہر مقام پر اپنی کم فہمی ، کم ہمتی ، بے عملی کے ہاتھوں سب کچھ ضائع کردیا۔ ورثے میں دولت ملی تو عیش و عشرت میں اور نکمے دوستوں کے ساتھ مل کر ضائع کردی۔ مہربان اور شفیق بہن ملی اور اس نے اس کا ہاتھ تھاما اور اسے روپیہ دے کر قافلے کے ہمراہ روانہ کیا تو اس نے سب کچھ بھول بھلا کر ایک خوبصورت حسینہ کے عشق میں اس کی غلامی اپنا لیں اور بہن تک کا خیال نہ آیا۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہر جگہ اپنی کمزور کردار کی وجہ سے مصائب ہیں میں مبتلا رہا اور کسی مقام پر بھی کوئی موثر اقدام نہ کر سکا۔

 

    درویش کی بہن کا کردار:

               پہلے درویش کی بہن کا کردار بھی ایک  قابل ذکر کردار ہے اور میر امن نے اس کردار کیکچھ ایسے الفاظ میں نقش گری کی ہے کہ انہیں بے ساختہ داد دینے کو جی چاہنے لگتا ہے پہلا درویش اس کا حال کچھ اس طرح بیان کرتا ہے کہ :

              وہ ماں جائ میرا یہ حال دیکھ کر بلائیں لے گلے مل کر بہت روئی تل ماش اور کالے ٹکے مجھ پر سے صدقے کیے اور کہنے لگی ،اگرچہ ملاقات سے  دل بہت خوش ہوا لیکن بھیا تیری یہ کیا صورت بنی ؟ کئی مہینے اس کے ہاں آرام سے رہا پھر وہ ایک دن نہایت شفقت سے بولی ۔” اےبیرن تم میری آنکھوں کی پتلی اور ماں باپ کی موئ مٹی کی نشانی ہے ۔  تیرے آنے سے میرا کلیجہ ٹھنڈا ہوا جب تجھے دیکھتی ہوں باغ باغ ہو جاتی ہوں ۔  تو نے مجھے نہال کیا لیکن مردوں کو خدا نے کمانے کے لئے بنایا ہے گھر میں بیٹھے رہنا ان کو لازم نہیں ۔  جو مرد نکھٹو ہو کر گھر سیتا ہے ۔ اس کو دنیا کے لوگ طعنہ مہنا  دیتے ہیں ۔ خصوصا اس شہر کے آدمی چھوٹے بڑے بے سبب تمہارے رہنے پر کہیں کہ  اپنے باپ کی دولت دنیا کھو کھا کر بہنوئی  کے ٹکڑوں پر پڑا یہ نہایت بے غیرتی اور میری تمہاری ہنسائی اور ماں باپ کے نام کو سبب لاج لگنے کا ہے  تو میں نے اپنے  چمڑے کی جوتیاں بنا کر تجھے  بناؤ اور کلیجے میں ڈال کر رکھو۔"

   

      اس اقتباس کو پڑھتے ہوئے جس دن کا تصور ہمارے ذہن میں اجاگر ہوتا ہے وہ سر سے پاؤں تک ایک ہندوستانی بینک کا تصور ہے جیسے کالی داس کی شکنتلا کو ہر ہندوستانی ہندو اپنی بیٹی سمجھتا ہے اس طرح برصغیر کا ہر مسلمان اسے اپنی بہن گردانتا ہے ۔   ایک ایسی بین چین کی جسے اپنے بھائی سے از حد درجہ محبت ہے ہے جو اپنی بدحالی پر رنجیدہ اور خوشحالی کی آس لگائے ہوئے ہیں اور جو ایک ہی وقت میں اپنے بھائی خاوند اور مرے ہوئے ماں باپ کی لاج رکھنے کی خواہاں ہے۔

 

·     نتیجہ :

             میر امن کے افسانے باغ و بہار کے درویش اور درویش کی بہن کے کردار کے مطالعہ کے بعد ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس افسانے میں میں درویش کا کردار نکمہ اور بہت برا ہے اور اس کی بہن کا کردار اچھائی پر ہے ۔ ان دونوں کرداروں کو دیکھتے ہوئے ہمیں اپنی اور اپنے معاشرے کی اصلاح کرنی چاہیے۔

Tuesday, March 8, 2022

اردو لیکچر شیپ کی تیاری کا آسان طریقہ

      

لیکچرر، ایس ایس تیاری

بہت سے احباب انباکس میں پیغامات بھیج رہے ہیں کہ ہم تیاری کس کتاب سے کریں؟ اس بارے میں پہلے بھی پوسٹ کر چکا ہوں۔ ہو سکتا ہے میری پوسٹ ان احباب کی نظر سے نہ گزری ہو اس لیے دوبارہ سے کچھ اضافے کے ساتھ پوسٹ کر رہا ہوں تاکہ میری زاتی رائے تمام احباب تک پہنچ جائے۔

یقین مانیں ایسے سوالات پر بہت حیرت ہوتی ہے کہ پانچویں جماعت کا امتحان  پاس کرنے کے لیے بھی 6 سے 8 کتب پڑھنی پڑتی ہیں اور آپ لوگ ایک گائیڈ سے  لیکچرر ٹیسٹ کی تیاری کرنا چاہتے ہیں۔ میں نہ تو کوئی پروفیسر ہوں اور نہ ہی لیکچرر، کچھ محبت رکھنے والے دوست جب اعتماد کرتے ہوئے کچھ پوچھ لیتے ہیں تو خوشی ہوتی ہے اور میں اپنا فرض سجھتا ہوں کہ ان دوستوں کو صحیح مشورہ دیا جائے۔ بس ادب کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہونے کے ناطے جو میری زاتی رائے ہے وہ میں ضرور دینا چاہوں گا جس سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔ میں ایسے ممبران کی حوصلہ شکنی تو نہیں کرنا چاہوں گا مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ ایک گائیڈ سے لیکچرر کی تیاری ممکن نہیں ہے۔ میں معروضی کتب کے حق میں بلکل نہیں ہوں  مگر پھر بھی اگر کسی ایک کتاب کا نام لوں تو وہ سہیل بھٹی کی جنرل اردو معروضی ہوگی اور اس کے ساتھ ایسی کتاب جس میں معروضی اور غیر معروضی دونوں قسم کا مواد ہو تو کلید اردو ہوگی۔ ڈاکٹر اختر شمار کی جنرل اردو (غیر معروضی) جو سی ایس ایس، پی سی ایس، پی ایم ایس کو مدِنظر رکھ کر لکھی گئی ہے مدد گار ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر سنبل نگار صاحبہ کی دو کتابیں " اردو نثر کا تنقیدی مطالعہ" اور "اردو شاعری کا تنقیدی مطالعہ" بھی کسی حد تک رہنمائی فراہم کر سکتی ہیں۔ مندجہ بالا کتب پڑھنے کے بعد بھی اگر آپ لیکچرر بن جاتے ہیں تو اپنی خوش نصیبی سمجھیں۔

اب کچھ ایسی کتب کی لسٹ بتانے جا رہا ہوں جو میں پہلے بھی اس گروپ میں پوسٹ کر چکا ہوں اور ان کتب کے مطالعہ کے بعد بھی اگر آپ لیکچرر یا ایس ایس نہیں بن پاتے تو اپنی بدنصیبی سمجھیں۔

 

1۔اردو کی مختضر ترین تاریخ" ( سلیم اختر صاحب) یہ میری سب سے پسندیدہ کتاب ہے ادب کی تاریخ کو اختصار کے ساتھ اس سے زیادہ خوبصورت طریقے بیان نہیں کیا جا سکتا شاید۔

2۔زندہ رود۔ ( اس کا موضوع اقبال ہے۔ ایک موضوع پر اتنی بڑی کتاب پڑھنا شاید آپ لوگوں کو موزوں نہ لگے مگر انٹرویو کے حوالے سے اقبالیات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا)

3۔ولی سے اقبال تک

4۔ داستان سے افسانے تک

5-اردو کی تحریکیں

6-ادبی اصطلاحات ( ایک مختصر کتاب ہے مگر اہمیت کی حامل ہے)

7دسویں کی قواعد اردو ( مولوی عبدالحق صاحب والی مشکل ہو جائے گی اور چند چیزیں اس میں غیر ضروری بھی ہیں میری زاتی رائے کے مطابق)

8- نہم سے چودھویں تک اردو کورس۔

9-اس کے بعد بھی اگر وقت ہو تو جمیل جالبی صاحب کی تاریخ اردو ادب پڑھ لیں۔ 10- آخر میں سہیل بھٹی صاحب والی جنرل اردو معروضی لے کر اپنا جائزہ لے لیں۔

ان تمام کتب کے علاوہ اپنے ایم اے کے سلیبس کی دہرائی کر لیں تو سونے پے سہاگہ

 اس کے علاقہ تیاری کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔

نوٹ میری ہر تحریر ان دوستوں کے کیے ہوتی ہے جو اردو ادب کے میدان میں پہلا قدم رکھ رہے ہوں۔

 تحریر میری ذاتی رائے اور تجربے پر مبنی ہے اس کو حتمی نہ سمجھا جائے اور اگر کوئی تجربہ کار ممبر اس میں کچھ کمی بیشی کرنا چاہے تو کمینٹ میں اپنی رائے دے سکتا ہے۔ شکریہ

Monday, March 7, 2022

تحریر و انشا کی ظاہری خوبیاں

 

·    تحریروانشا :-

                     تحریر کے معنی لکھنا اور انشا کے معنی لکھنے والا ۔ زبان کو مختلف علامتوں اور رموز ( جسے تحریری زبان کہتے ہیں ) کے ذریعے لکھنے کو تحریر کہتے ہیں ۔ یہ ایک مواصلاتی ذریعہ ہے جس سے ہم پیغام رسائی اور معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں ۔

                       جب قلم کی نوک کاغذ پر چلتی ہے تو حروف اور الفاظ جنم لیتے ہیں ۔ حروف اور الفاظ کے ملنے سے جملے وجود میں آتے ہیں ۔ جملوں کی ترکیب اور ملاپ سے پیراگراف تشکیل پاتی ہیں ۔ اس طرح ہزاروں الفاظ ،سینکڑوں جملے اور بیسیوں پیراگراف مل کر تحریر کا روپ دھارتے ہیں ۔ اس طرح ہم مختلف خط ، مضامین اور کتابیں ککھتے ہیں۔ لکھنے کے اس فن کو تحریر کہتے ہیں۔

·    تحریروانشا کی ظاہری خوبیاں:-

                         ہر زبان کے کچھ ظاہری آداب ہوتے ہیں اور کچھ باطنی۔دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں،تحریر و انشاء کی کچھ لفظ خوبیاں ہوتی ہیں اور کچھ حقیقی اور معنوی۔اس میں ہم تحریروانشاء کے سات ظاہری خوبیاں بیان کی ہیں ۔ان کو اپنانے سے تحریر معیاری تصور کی جائے گی اور ان خوبیوں کو اپناکرآپ ایک اچھے قلم کا تصور کیے جائیں گے ۔اور آپ کی تحریر ایک کامیاب تحریر تصور کی جائے گی۔

۔۔۔اس کی سات خوبیاں مندرجہ ذیل ہیں

1.   قواعد انشا

2.   املا

3.   رسم الخط

4.   مکمل اور برمحل نقطے

5.   پورے شوشے

6.   صحیح جوڑ

7.   علامات کا درست استعمال

 


·     ظاہری خوبیاں کیا ہیں :-

                         ظاہری خوبیوں سے مراد وہ خوبیاں جو کسی چیز کو باہر سے یا جسمانی طور پر بالکل ٹھیک نظر آئیں، اس کو ظاہری خوبیاں کہتے ہیں۔ اور تحریر میں ظاہری خوبیوں سے مراد کہ لکھنے والے نے تحریر کو ٹھیک ، قوعد کے ساتھ اور لفظوں اور جملوں کو ٹھیک طرح لکھا ہو ، تاکہ پڑھنے والے کو مشکل نہ پیش آئے ۔

     تحریر و انشاء کی ظاہری خوبیاں :

1.  قواعد انشا  :-

                تحریری لکھتے وقت اس زبان کے قواعد و انشاء سے واقفیت ضروری ہے ۔ قواعد وانشاء کا موضوع بہت طویل ہے۔جہاں ایک مثال پر اکتفا کریں گے۔کا ،کے، کی وغیرہ کے الفاظ مقرر کے لئے اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے کے قلم کار کے لئے ۔مونث اور مذکر الفاظ کا مسئلہ بھی قابل توجہ ہے ۔مثال کے طور پر لفظ' فراک ' مذکر ہے لیکن عموما مونث بولا جاتا ہے۔ الفاظ لکھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ الفاظ کی تذکیر و تانیث ،ترکیب اور مزاج سے واقف ہوں ۔اس طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حروف معنی کے استعمال،مبتدا و خبر ،فیل فائل میں مطابقت وغیرہ کہ کونین سے آگاہ ہوں ۔

 

2.  املا  :-

                   ہر لفظ کو ٹھیک ٹھیک لکھا جائے، یعنی اس میں جتنے اور حروف آنے چاہیے اور جس ترتیب سے آنے چاہیے اسی طرح آئے ہو اور ان حرفوں کے جوڑ پیوند بھی ٹھیک ہوں تو کہا جائے گا اس لفظ کا 'املا' درست ہے ۔اگر اس کے خلاف ہوگا تو کہا جائے گا کہ املا غلط ہے املا کی تعریف یوں بھی کی گئی ہے : ،املا لفظوں کی صحیح تصویر کھینچتا ہے ا اس کو یوں بھی کہا گیا ہے:, املا، لفظوں میں حروف کے صحیح صحیح استعمال کا نام ہے ۔۔جو طریقہ ان حرفوں کو لکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے وہ رسم خط کے کہلاتا ہے ۔ املا اور رسم الخط میں وہی نسبت ہے جو پھول میں اور اس کے رنگ اور خوشبو میں پھول میں ہوتی ہے۔ پھول نہ ہو تو رنگ کا موجود متعین نہ ہو پائے گا نہ خوشبوکو ٹھکانا ملے گا ۔ لکھنے میں املا ایسا ہی ہے جیسے بولنے میں تلفظ اور رسم الخط ایسا ہے جیسے بولنے میں لب و لہجہ ۔

                 کسی بھی زبان کے لیے اور اس کے لکھنے والوں کے لئے یہ فخر کی بات نہیں کہ معمولی معمولی لفظوں کو صحیح طور پر نہ لکھا جائے یا ایک ہی لفظ کو کوئی کسی طرح لکھے اور کوئی کسی طرح اور یہ بات ٹھیک معلوم نہ ہو کہ صحیح صورت کیا ہے؟

                 

                        جس طرح بولنے والے کو لفظ کا تلفظ معلوم ہونا چاہیے ۔اس طرح لکھنے والے کو لفظ کا املا معلوم ہونا چاہیے۔جس طرح قلم کی جگہ پنسل بولنا صحیح نہیں اسی طرح قلم کو کلم لکھنا بھی درست نہیں ہوگا۔اگر ایک شخص 'پان' کو 'بان' کہےتو کہا جائے گا ، کہ تلفظ بگڑ گیا۔ اسی طرح اگر چونا اور اور کتھہ لکھا جائے تو کہاں جائے گا۔ کہ ااملا ہلط ہوگیا۔ کیوں کہ صحیح املا چونا اور کتھا ہے۔

                     اضافت کی صورت میں لفظ کے آخر میں حروف پر زیر آجاتا ہے ۔ یہ مانا ہوا قاعدہ ہے۔ منزل اور زندگی دو لفظ ہیں۔ اضافت کی صورت میں منزل مقصود لکھا جائے گا، مگر اس کو منزل  بغیر زیر کے لکھا جائے تو ہر شخص یہی کہے گا کہ املا ناقص ہو گیا .

 

                    اسی طرح کچھ لفظ ایسے ہیں جو ایک معنی میں 'الف' سے اور ایک معنی میں 'ہ' سے صحیح ہیں ۔ اس کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ جملے میں صحیح الفاظ کا استعمال کیا جائے آئے۔ بے احتیاطی کی وجہ سے معنی بدل سکتے ہیں اور ختم بھی ہو سکتے ہیں۔ یعنی یہ ہو سکتا ہے کہ غلط املا کے سبب معنی ہیں چوپٹ ہو جائیں۔ ایسے خاص الفاظ یہ ہیں:

۔۔۔۔۔۔۔  آسیا : چکی                    آسیہ : فرون کی بیوی کا نام

۔۔۔۔۔۔۔ پارا : جس سے فارسی میں سیماب کہتے ہیں۔  پارہ : ٹکرا

۔۔۔۔۔۔۔ چارا : جانوروں کی خوراک کے کام آتے ہیں۔۔ چارہ : تدبیر

۔۔۔۔۔۔۔ نالا : ندی نالہ ۔۔                 نالہ : نالہ و فریاد

 

                    اس لیے یہ بات ضروری ہے کہ کہ لکھنے والے کو ہر لفظ کا صحیح عملہ معلوم ہو اس کے ساتھ ساتھ صحت املا  سے متعلق ضروری باتیں بھی اس کے علم میں ہوں۔

 

 

 

3.  رسم الخط :-

                 اردو میں دو خط رائج ہیں : خط نسخ اور خط نستعلیق ۔ اس معنی میں خط اصطلاحی لفظ ہے ۔ لکھاوٹ کی کسی خاص روش کے لیے اس لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ ہر زبان کا رسم الخط تو ایک ہی ہوتا ہے مگر لکھاوٹ کے انداز ایک سے زیادہ ہو سکتے ہیں ۔  ایک مثال سے اس کا اچھی طرح اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ انگریزی کی چھپی ہوئی کتابوں کو آپ دیکھتے ہیں ہوں گے اور پڑھتے بھی ہوں گے اور پھر خود بھی انگریزی عبارت کو اپنے قلم سے لکھتے ہوں گے ۔  دونوں جگہ لکھاوٹ کا ڈھنگ مختلف ہوتا ہے رسم الخط ایک ہی ہے ، مگر انداز دو ہیں ۔

                           اردو میں کسی زمانے میں ٹائپ کی چھپائی خط نسخ میں ہوتی تھی ۔ باقی سب کاموں کے لیے خط نستعلیق کا استعمال کیا جاتا تھا ۔ اب تو کمپوٹر آگیا ہے،  کمپوزنگ نستعلیق ہی میں ہوتے ہیں ۔ روزمرہ کے سارے کام (خط لکھنا ،حساب کتاب وغیرہ ) اسی خط میں انجام پاتے ہیں۔ طالب علم شروع ہی سے خط نستعلیق کو سیکھتا ہے اور پھر عمر بھر اسی خط میں سب کچھ لکھتا رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صحت املا میں اصل اہمیت اسی خط کی ہے، ایک خط اور تھا ۔ جس کا نام تھا "خط شکستہ " ۔ دفتروں میں اس کا چلن تھا۔ تیز لکھائی کے لیے یہ کارآمد تھا ۔ اسم لمبی لمبی آڑی ترچھی کشی ہوتی تھی ۔ اور بہت سے حروف ایک دوسرے سے ملا کر لکھے جا سکتے تھے ۔ اب اس کا صرف نام رہ گیا ہے ۔ وہ دفتر ہی نہیں رہے ۔ یہ جو بہت سے لوگ لکھتے لکھتے گھسیٹ میں لکھنے لگتے ہیں ، یہ اسی خط شکستہ کا اثر ہے وہ خط تو اب  نہیں رہا ، لیکن اس کے بعد اثرات عام لکھائی باقی رہ گئے ہیں۔

 

4.  مکمل اور درست نقطے :-

                        لفظ مجموعہ ہوتا ہے دو حرفوں کا، وہ دو حروف ہو یا زیادہ ۔ ایسے حروف  زیادہ ہیں جو ملا کر لکھے جا سکتے ہیں ۔ حروفوں کو ایک دوسرے سے ملا کر لکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں لایا جائے ۔ جیسے ایک حروف ہے " ب " ۔ جب یہ لفظ کے آخر میں آتا ہے تو اس کو اسی طرح لکھا جاتا ہے۔ جیسے اب ، جب مگر جب یہ شروع میں یا درمیان میں آتا ہے تو الگ الگ حروفوں کے ساتھ اس کی الگ الگ شکلیں بن جاتی ہیں ۔ جیسے"بت، بج، بس ۔ اب اس حرف کی چار شکلیں ہوئیں ۔ بہت سے حرف اسی طرح نہ شکلیں بدلتے ہیں ۔ کسی لفظ میں بس دو حرف تو عام طور پر اس کے لکھنے یا  پڑھنے میں الجھن نہیں ہوتی ۔ اگر کوئی لفظ تین یا چار یا اور زیادہ عرفوں کا مجموعہ ہو تو الجھن پیدا ہو سکتی ہے ۔ مثلا ایک لفظ ہے" بنتا" ۔  اس میں چار حرف ہیں ۔ شروع کے تین حروف صرف (ب ن ت) ایک ہی گروپ کے ہیں ۔ ان کے جوڑ ایک ہی کی طرح لگتے ہیں ، یعنی یکساں ششوں کی صورت میں ان کو لکھا جاتا ہے ۔ بس نقتوں کی مدد سے ان کو پہچانا جاتا ہے ۔ اب اگر نقطے پورے پورے نہ لگائے جائیں یا صحیح جگہ پر نہ ہوں تو ظاہر ہے کہ لفظ کی لکھاوٹ غلط ہو جائے گی ۔ کوئی شخص اٹکل سے پڑھ لے تو پڑھ لے ورنہ عام طور پر اس لفظ کو غلط ہی پڑھا جائے گا  ۔ غلط پڑھا گیا تو معنی بدل جائے گئیں یا چوپٹ ہو جائیں گے ۔ جیسے ایک لفظ ہے نبی (ن ب ی) بن سکتا ہے ۔ یہ جیسے ایک لفظ ہے "رجحان " اس کو با آسانی رجحان پڑھا جا سکتا ہے ۔ اس لئے تحریر کی خصوصیت میں شامل ہے کہ کہ نقطوں کو ٹھیک طرح لکھا جائے اور اپنی جگہ پر لکھا جائے ۔

 

5. پورے شوشے :-

                    جلدی میں اپنی کاپی میں آپ جو لکھیں اور جیسے لکھیں دیکھیں وہ آپ کی مرضی۔  لیکن جب کوئی خط لکھا جائے ، کوئی مضمون تحریر کیا جائے ، امتحان کی کاپی میں جوابات لکھے جائیں یا اور کچھ لکھا جائے جو سب کے لئے ہو تو اس کا لحاظ رکھنا چاہئے کہ وہ حرفوں کے جوڑ قاعدے کے مطابق ہوں اور شوشے بھی ٹھیک ٹھاک ہوں ۔ یہ نہ ہو کہ" صبح "کو "صج"  یا "کسنا " کو "کنا" لکھا جائے اور یہ بھی نہ ہو کہ آپ کی تحریر پٹواری کا اندراج بن کر رہ جائے ، جس کو وہ خود ہی پڑتا ہے یا وہ ان حکیم صاحب کا نسخہ ہوں جن کے لکھے کو ان کے خاص عطار کے سوا اور کوئی نہیں پڑھ سکتا ۔    

                             ہمارے گاؤں میں کوئی شخص کسی کو بد دعا دے رہا ہوں یا پھر برا بھلا  کہہ رہا ہوں تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ اچھے خاصے آدمی کا چہرہ بدل جاتا ہے ، اور منہ بن جاتا ہے ۔ زبان کے بگڑنے سے جس طرح چہرہ بگڑ جاتا ہے، اسی طرح تحریر کے بگاڑ سے لکھنے والے کی شخصیت گہنا جاتی ہے ۔ پڑھنے والے کی آنکھیں فورم دل تک یہ بات پہنچاتی ہے کہ یہ شخص یا تو اول جلول ہے یا بہت بے پرواہ ہے یا یہ کہ اس کے دل میں مکتوب الیہ کے لئے لحاظ اور مروت کچھ کم ہے ۔ سب کا خط اچھا ہو ، اس کی امید نہیں کرنا چاہیے ،مگر یہ مختلف بات ہے ۔ خط اچھا نہ ہو یہ تو ایک بات ہوئی اور اول جلول پن کے ساتھ لکھنا دوسری بات ہے ۔ خط جیسا بھی ہو اگر لفظ میں شامل اور حرفوں کی ترتیب درست ہے جوڑ ٹھیک ہیں ، شوشے پورے ہیں، نکتہ صحیح جگہ پر ہیں اور جلد بازی  یا بے پروائی کا پیدا کیا ہوا آڑاترچھا پن نہیں ہے تو یہ کافی ہے ۔

 

6.  صحیح جوڑ : -

            دو لفظوں کو بلاوجہ ملا کر نہیں لکھنا چاہئے ۔ اردو میں شوشے،جوڑ، نقطے،حرفوں  کی مختلف صورتیں ،یہ سب اس قدر اور اس طرح ہیں کہ ان سب کے ساتھ دو یا زیادہ لفظوں کو ملا کر لکھنا،نگاہ کو مزید آزمائش میں مبتلا کرنا اور طالب علم کو حیران کرنا ہے۔ لکھنے اور پڑھنے کی آسانی اس میں ہے کہ لفظوں کو ملا کر نہ لکھا جائے۔ اس سے پڑھنے میں آسانی اور لکھنے میں سادگی کا فائدہ حاصل ہوگا۔ زبان صرف اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کے لئے نہیں ہوتی،وہ طالب علموں اور کم خواندہ لوگوں کے لئے بھی ہوتی ہے۔ ایک لکھا پڑھا آدمی ' نیکبخت' کہ پڑھنے میں الجھن ہیں محسوس کرے گا ،مگر ابتدائی درجوں کے طلبہ اور معمولی سطح کے آدمیوں کو اس کو پڑھنے میں الجھن سے آنکھیں چار کرنا پڑیں گی ۔ انجمن ترقی اردو نے یہی تحقیق تھا کہ ، مرکب لفظ جو دو یا زیادہ لفظوں سے بنے ہوں آپس میں ملا کر نہ لکھے جائیں ۔ بلکہ ہمیشہ الگ الگ لکھے جائیں ۔ اس کی پابندی کرنی چاہیے ۔ ذیل میں چند مشہور اصول لکھے جاتے ہیں جن کی عام طور پر خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔

1.'بہ '  لفظ کے شروع میں آئے یا درمیان میں اس کو الگ لکھنا چاہیے ۔مثلا : بہ خدا ، بہ وغیرہ ۔ البتہ بجز ، بجائے، بہم وغیرہ ، یہ لفظ مستثنٰی الفاظ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ کیوں کے یہ مفرد لفظوں کی طرح بن چکے ہیں ۔ ان کو اسی طرح لکھا جائے گا۔

2. 'بے ' کو بھی کلمے سے ملا کر نہیں لکھنا چاہئے جیسے: بے دماغ، بے وفا، بےلگام وغیرہ ۔

3.' نہ ' کو بھی ملا کر نہیں لکھنا چاہئے۔ جیسے : نہ لکھو، نہ پوچھو ،نہ کہو وغیرہ۔

 

7. علامات کا درست استعمال :-

                  ہمارے ہاں چونکہ تحریر و تحقیق و تصنیف کی تربیت کا رواج نہیں  اس لئے بعض الفاظ کے مجموعے کو 'جملہ ' اور چند یا خاص جملوں کے مجموعے کو' مضمون' کا نام دیا جاتا ہے۔ آج کل اردو میں لکھی جانے والی اکثر تحریروں میں آپ کو پورے پورے مضامین میں کسی قسم کی علامت کا استعمال نظر نہیں آئے گا۔ جملہ شروع ہوگا تو پھر پیراگراف کے آخر میں ایک ختمہ (.) ملے گا ۔ یہ مزاج اخبار کا بھی ہے اور رسائل کا بھی۔ تحریر کی علامت ( سکتہ ،ختمہ، نداہیہ غیرہ ) تحریر کا سولہ سنگھار ( میک اپ) ہیں ۔ ان سے تحریر میں خوبصورتی اور کشش پیدا ہوتی ہے۔ اس سے قلم کار کا مدعا بیان کرنا آسان ہوتا ہے۔ انگریزی ادب میں ان تمام علامات کے اصول اور معیارات مقرر ہیں۔ اور ان کے مطابق کی ان علامات کو تحریروں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ان علامات کے استعمال کا معاملہ اس قدر حساس ہے کہ محض معمولی سے ردوبدل سے جملے کا مفہوم بدل سکتا ہے۔ اس لئے ان علامات کو پابندی کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے۔


 خلاصہ :-

                       تحریر انشاء کی ظاہری خوبیوں میں، قواعد انشا ،املا ،رسم الخط ،مکمل اور برمحل نقطے ،پورے شوشے ،صحیح جوڑ اور علامات کا درست استعمال کی خوبی شامل ہیں ۔ یہ خوبی و تحریر کو درست، قواعد کے مطابق اور پڑھنے کے قابل بناتی ہیں ۔

                          ان خوبیوں سے ظاہر ہے کہ تحریر کو مطابق اطابق لکھا جائے۔ املا کا خاص طور پر خیال رکھا جائے، کیونکہ املا کے بغیر معنی واضح نہیں ہوتے۔ نقطوں کو بھی دیکھا جائے۔ ان کو مکمل اور درست جگہ پر پر لکھا جائے ۔حرفوں کو جوڑ کر اور قوائد کے مطابق جائے ، تاکہ قاری کو پڑھنے میں پریشانی نہ ہو ۔ اور دو لفظوں کو جوڑ کر نہ لکھا جائے بلکہ ان کو الگ الگ رکھا جائے آئے، کیوں کہ پڑھنے والا صرف ماہر تعلیم ہی نہیں بلکہ طالب علم بھی ہو سکتا ہے ۔ علامات کا بھی ٹھیک طرح خیال رکھا جائے ،علامات کے بغیر یہ جاننا مشکل ہوتا ہے کہ کون سا جملہ کہا اور کیسے ختم ہوتا ہے ۔ اس لیے ختنہ،سکتہ ،اور ندائیہ وغیر کا خیال رکھا جائے ۔ اور ان کو جملوں میں ٹھیک جگہ استعمال کیا جائے۔

                              یہی تمام تحریر انشاء کی ظاہری خوبیاں ہیں۔ جن کے استعمال سے تحریر مکمل، درست اور خوبصورت نظر آتی ہے ۔ اور پڑھنے والے کو تحریر پڑھنے میں مشکل پیش نہیں آتی ۔ اور اگر ان کا استعمال نہ کیا جائے تو پھر وہ تحریر پڑھنے کے قابل نہیں رہتی، جو پڑھنے والے کو مشکل میں ڈال دیتی ہے ۔


                 نتیجہ :-

             ان تمام ظاہری خوبیوں کے مطالعے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں، کہ ان ظاہری خوبیوں اور درست طریقے کے استعمال کے بغیر تحریر پڑھنے کے قابل نہیں ہوتی اور اگر ان کی خوبیوں کے مطابق تحریر کو لکھا جائے ،تو یہ ظاہری خوبیاں تحریر کو خوبصورت، درست اور پڑھنے کے قابل بنا دیتی ہیں ۔ جس سے پڑھنے والے کو مشکل پیش نہیں آتی۔ اور آسانی سے ہماری لکھی گی تحریر کو پڑھ سکتے ہیں۔

عمران خان نے اپنے حکوت میں کیا کیا کام کیے

  عمران _ خان   نےساڑھے _ تین _ سالوں _ میں _ کیا _ کیا .. ؟ 1 ⃣ - ہالینڈ کی حکومت سے   گستاخانہ خاکوں کی نماٸش کو رکوایا . 2 ...